فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں 30 مارچ 2018ء کو ‘یوم الارض’ کے موقع پر ہزاروں فلسطینیوںنے عظیم الشان حق واپسی مارچ شروع کیا۔ ہفتہ وار بنیادوں پر جاری احتجاج کا یہ سلسلہ 30 مارچ کو ایک سال مکمل کرنے کےبعد دوسرے میں داخل ہوجائےگا۔
فلسطینی شہریوں نے عظیم الشان حق واپسی مارچ کے دوران پرامن حتجاج کے متعدد طریقے اور حربے استعمال کیے جنہوںنے صہیونی ریاست کو ایک نئی پریشانی اور تشویش سے دوچار کیا۔ دوسری جانب صہیونی فوج نے مشرقی غزہ میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کا سلسلہ شروع کیا جس میں 300 کے قریب فلسطینی شہید اور 28 ہزار سے زاید زخمی ہوگئے۔
حق واپسی مارچ کا ایک سال مکمل ہونے اور اس تحریک کے ایک سال کے بعد اس کے مستقبل کے حوالے سے فلسطینی تجزیہ نگاروں نے عظیم الشان حق واپسی مارچ اور اس کے مستقبل پراپنی ماہرانہ رائے دی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے عظیم الشان ملین مارچ نے صہیونی دُشمن کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا۔ ان مظاہروں کے دوران غزہ میں اِنسانی سونامی نے صہیونی حکام کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
پہلی سالگرہ کا ملین مارچ
غزہ میں جاری حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی کے عظیم الشان ملین مارچ کو 30 مارچ کو ایک سال ہوجائیں گے۔ اس موقع پر تحریک کی انتظامی کمیٹی نے ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔
انتظامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ حق واپسی کے سالانہ ملین مارچ کے موقع پر پوری قوم کو متحرک کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد سلب کئے گئے حقوق کا حصول ہے اور ہم اپنے اہداف اور منزل کے حصول تک اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔
خیال رہے کہ 30 مارچ کو غزہ میں جاری احتجاج اور حق واپسی مظاہروں کے 50 ہفتے پورے ہو جائیں گے۔
کامیابی، چیلنجز اور استقامت
تجزیہ نگار ایاد القرا کا کہنا ہے کہ غزہ میں محض ایک سال تک عوامی مظاہروں کا جاری رہنا اور ان میں عوام کی بھرپور شرکت فلسطینی قوم اور قضیہ فلسطین کی غیرمعمولی کامیابی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے احتجاجی مظاہروں اور مارچ کو طاقت سے کچلنے کے لیے طاقت کا بھرپوراستعمال کیا مگر صہیونی فوج ریاستی دہشت گردی کے مکروہ ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود فلسطینیوں کے عزم کو شکست نہیں دے سکے۔
سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ نئے سال میں داخلے کے بعد حق واپسی تحریک ایک نئے میدان میں داخل ہوگئی ہے اور اسے نئے چیلنجز درپیش ہیں۔ دیکھنا یہ ہےکہ اس تحریک کے دوسرے سال کے دوران فلسطینی احتجاج کے کون کون سے نئے پرامن راستے اختیار کریں گے اور اسے کیسے کامیابی سے ہم کنار کریں گے۔