فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں صہیونی فوج کی غنڈہ گردی کے نتیجے میں عام فلسطینی شہری زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اسکولوں فلسطینی طلباء کو بھی سنگین نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔
آئے روز اسرائیلی فوجی فلسطینی اسکولوں میں جا گھستے، طلباء اور اساتذہ کو ہراساں کرتے اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
حال ہی میں فلسطین کے غرب اردن کے جنوب مشرقی علاقے اللبن میں صہیونی فوج نے ایک اسکول میں گھس کر طلباٗ اور استاتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
الساویہ انٹرمیڈیٹ اسکول کے طلبا اور انتظامیہ نے بتایا کہ صہیونی فوج کی بھاری نفری نے اسکول میں گھس کر وہاں پرموجود تمام افراد کو ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکول میں موجود قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کی۔
مقامی فلسطینی آبادی کا کہنا ہے کہ الساویہ اسکول اس اللبن قصبے کا سب سے پرانا ہائی اسکول ہے جس کی عمر صہیونی ریاست کی عمر سے زیادہ ہے۔
صہیونی فوج نے الساویہ اسکول کے راستے میں آنے والے تمام راستوں پر جگہ جگہ خار دار تاریں لگا کر اسے بند کردیا ہے جب کہ طلبا کو راستے تبدیل کرکے دور درواز کےعلاقوں سے گذر سفر کرنےپرمجبور کیا جاتا ہے۔
اسکو ل کے طالب علم بہا مہند عویس نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے اسکول کے راستے میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے باعث انہیں سردیوں کے موسم میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سردیوں کے صبح کے اوقات میں وہ ایک طویل سفر طے کرکے شاہراہ الوحل او البطن سے گذر کر ایک ذیلی سڑکو کے ذریعے وہ اسکول پہنچتے ہیں۔
خیال رہے کہ الساویہ اسکول 1944ء میں قائم کیا گیا۔ یہ اسکول مشرقی اللبن، الساویہ اور عموریا کے قصبے کے فلسطینیوں کا مشترکہ اسکو ہے۔
اللبن قصبے کا یہ اسکول پہاڑے علاقے میں واقع ہے جو نابلس اور رام اللہ کو ملانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔
جعلی پروپیگنڈہ اور اشتعال انگیزی
فلسطینی علاقے اللبن کے مقامی طلباٗ کو اسرائیلی بندشوں کے باعث دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے اسکول پہنچنا پڑتا ہے۔
اللبن قصبے کے طالب علم عمر عبدالحکیم دراغمہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتےہوئے کہا کہ صہیونی فوج اور دشمن کے انٹیلی جنس ادارے ہمہ وقت ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔ طلبا کےگھروں سے اسکول جاتے اور اپس گھرآتے ہوئے انہیں صہیونی فوج مسلسل تعاقب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طلباء کو اسکول جانے سےروکنا صہیونی ریاست کی کھلم کھلا اشتعال انگیزی ہے۔
دراغمہ نے کہا کہ صہیونی فوجی اسکول کی طالبات اور طلبا کی تصاویر لی جاتی ہیں۔ اس اشتعال انگیزی کا مقصد طلبا کو ہراساں کرنا ہے۔
اسکول کے طالب علم نور عمرحماد نے کہا کہ فلسطینی طلبا کو ہراساں کرنے کے لیے دشمن جس طرح کے ہتھکنڈے اور حربے استعمال کررہا ہے وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہودی آباد کاروں کو اسکول کے اطراف میں کھلم کھلا گھومنے کی اجازت دی گئی جب کہ فلسطینیوں کو قدم قدم پر رکاوٹین کھڑی کی جاتی ہیں۔
مکروہ صہیونی عزائم
الساویہ اسکول کے اطراف میں تین یہودی کالونیاں قائم ہیں۔ ان کالونیوں کے یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوجیوں نے اسکول کے اطراف میں موجود قیمتی پھل دار اور سایہ دار درخت تک کاٹ ڈالے ہیں۔ اسکول کا اپنا رقبہ 30 دونم ہے اور یہ جغرافیائی طورپر سیکٹر C میں واقع ہے۔ صہیونی حکام کی طرف کی اجارہ داری کا کوئی جواز نہیں مگر دشمن یہ بہانے تراش رہا ہے کہ چونکہ یہ سیکٹر اوسلو معاہدے کی روشنی میں قائم کیا گیا تھا اس لیے اس پر اسرائیل کو انتظامی اختیارات حاصل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مشرقی للبن کے میئر سامر عویس نے کہا کہ یہودی کالونیوں کی وجہ سے اللبن قصبہ آفت زدہ علاقہ بن چکا ہے۔ اس کے اطراف میں معالیہ لبونہ اور عیلی شیلو دو بڑی یہودی کالونیاں ہیں۔ یہودی آباد کاروں نے اس قصبے کی سیکڑوں دونم اراضی غصب کررکھی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عویص کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اللبن کے طلباء کو ہراساں کررہےہیں۔ آئے روز فلسطینی طلباء کی تلاشی کی آڑ میں تفتیش کی جاتی ہے۔ ان کی تلاشی لی جاتی اور بغیر وجہ کے ان کی کتابیں بستوں سے نکال کر پھینک دی جاتی ہیں۔
عویس کا مزید کہنا تھا کہ اللبن کے طلباء ہی نہیں بلکہ پوری آبادی صہیونی ریاست کی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامناکررہی ہے۔ مگر فلسطینی پورے عزم کے ساتھ صہیونی جرائم کا مقابلہ کررہے ہیں۔