کسی شخص کا دشمن کی قید میں مسلسل 30 سال گزارنا، تین عشروں تک ظلم وستم کا ہر حربہ اپنے جسم پر برداشت کرنا کہنے کو معمولی ہوسکتا ہے مگرعملا اس تکلیف دہ اور مصائب سے بھرے حالات کا تصور بھی ممکن نہیں۔ فلسطینی قوم میں ایسے سپوت موجود ہیں جووطن عزیز کی آزادی اور مقدسات کے دفاع کے لیے اپنا تن، من دھن سب کچھ قربان کیے جا رہے ہیں۔
انہی میں ایک نام محمود جبارین ہے۔ محمود جبارین 30 سال تک اسرائیلی زندانوں میں قید رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صہیونی عقوبت خانوں کو جیل نہیں قرار دینا چاہیے کیونکہ وہ زندہ انسانوں کی قبریں ہیں۔
شمالی فلسطین کے ام الفحم شہر میں ان دنوں لوگ خوشیاں بھی منا رہے ہیں کیونکہ محمود جبارین تیس سال قید کے بعد رہا ہو کر اپنے اہل خانہ سے ملے ہیں۔
محمود جبارین کے والدین تیس سال سے اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے دن اور رات گن گن کر گزار چکے۔ بیٹے سے ملاقات کا انتظار کرتے ان کی ماں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ماں کا انتقال محمود جبارین کی رہائی سے نو ماہ قبل ہوا۔
لخت جگر کا انتظار کرتی مامتا
محمود جبارین کا کہنا ہے کہ جہاں انہیں طویل عرصے رہائی کی خوشی ہے وہیں اپنی ماں سے ملاقات نہ ہونے کا دکھ پوری زندگی ساتھ رہے گا۔ ماں اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے برسوں انتظار کرتی رہی۔ بالآخر فرشتہ اجل نے مہلت نہ دی اور بیٹے کی رہائی سے صرف نو ماہ قبل اس دنیا فانی سے کوچ کرگئی۔
محمود جبارین کو اسرائیلی فوج نے 25 سال کی عمر میں 1988ء کو حراست میں لیا۔ اس وقت ان کی داڑھی سیاہ تھی اور آج وہ 55 سال کی عمر میں ہیں اور ان کی داڑھی سفید ہوچکی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے محمود جبارین نے کہا کہ میں پچیھے اپنے اسیر ساتھیوں کو چھوڑ کر آیا ہوں جو جیلوں میں نہیں بلکہ قبروں میں گاڑھے گئے ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے جو قیمت ادا کرنا پڑے فلسطینی قوم کو ادا کرنی چاہیے۔
قبروں میں زندہ دفن
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے محمود جبارین نے کہا کہ میں نے تیس سال اسرائیلی زندانون میں قید کاٹی۔ جیل کے کمروں کا تصور ایک قبر نما گڑھے کی طرح کریں کیونکہ اسرائیلی زندانوں میں فلسطینیوں کو رکھنے کے لیے بنائے گئے کمرے گڑھوں سے اور قبروں سے کم ہرگز نہیں۔ میں نے تین عشرے لوہے کہ سلاخوں کے پیچھے اور پتھروں سے بنے تنگ وتاریک غاروں میں گذارے۔
انہوں نے کہا کہ میرے دو دیرینہ ساتھی کریم اور ماھر یونس اسیری کے 37 سال پورے کرچکے ہیں۔ امید ہے وہ بھی ان قبروں سے آزادی حاصل کریں گے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں زندگی بہت مشکل تھی۔ دشمن نے میری ہر خوشی، آرام اور چین چھیننے کے لیے حربے استعمال کیے مگر میں اپنی رہائی کے لیے ہمیشہ پرامید رہا۔
خواتین اسیرات دہری مشکلات کا شکار
اسرائیلی زندانوں میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والے اسیران کے بارے میں کرتے ہوئے محمود جبارین نے کہا کہ خواتین قیدیوں کی مشکلات مردوں کی نسبت دوگنا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی جیلر جو جلاد کا کردار ادا کرتے ہیں خواتین پر تعذیب وتشدد کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اسیران کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں بالخصوص خواتین اسیرات کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا پتا چلائیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین، بوڑھے قیدیوں، بچوں اور مریض قیدیوں کو اسرائیلی زندانوں سے رہا کرانا ضروری ہے۔ ان کی رہائی پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔
محمود جبارین نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کی جانب سے جاری تحریک حق واپسی کی تحسین کی اور کہا غزہ کے عوام نے اپنے حقوق کے لیے مناسب اور درست قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے فلسطینی قوم کے درمیان وحدت اور یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ فلسطینیوں کو اتحاد کی جتنی آج ضرورت ہے، ماضی میں نہ تھی۔ محمود جبارین نے اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” اور تحریک فتح پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات بھلا کر قوم کے لیے ایک ہوجائیں اور مل کر فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے جدو جہد کریں۔