اسرائیلی زندانوں میں سال ہا سال سے قید ہزاروں فلسطینیوں میں 28 ایسے فلسطینی سپوت بھی ہیں جن کی اسیری کا عرصہ 25 سال سے تجاوز کرچکا ہے۔ یہ تمام اسیران صہیونی زندانوں میں بدترین امتیازی سلوک، نسل پرستی اور بدترین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف سے آواز بلند کیے جانے کے باوجود فلسطینی اسیران کے حالات بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کیا گیا ہے کہ "اوسلو” سمجھوتے سے قبل حراست میں لیے گئے فلسطینی اسیران میں 28 اسیران اب بھی پابند سلاسل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان فلسطینی اسیران میں نصف کے پاس اسرائیلی شہریت ہے اور ان کے ساتھ صہیونی جیلروں کا طرز عمل انتہائی سفاکانہ ہے۔ ان فلسطینیوں کا تعارف كريم يونس، ماهر يونس، إبراهيم أبو مخ، رشدي أبو مخ، وليد دقة، إبراهيم بيادسة، أحمد أبو جابر، بشير الخطيب، سمير سرساوي، إبراهيم اغبارية، ومحمد اغبارية، يحيى اغبارية اور ومحمد جبارين کے ناموں سے کیا جاتا ہے۔
محمود جبارین ام الفحم شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں اتوار کے روز رہا کیا گیا۔ انہیں 8 اکتوبر 1988ء کو حراست میں لیا گیا اور 30 سال قید کے بعد رہا کیا گیا۔