یکشنبه 17/نوامبر/2024

2018 کی پہلی ششماہی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 84 خواتین کی گرفتاری

پیر 16-جولائی-2018

فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ’مرکز برائے اسیران‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال [2018ء] کے نصف اول میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 84 فلسطینی خواتین کو حراست میں لے کر زندانوں میں قید کیا گیا۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسیران مرکز کے ترجمان ریاض الاشقر نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی خواتین میں بچیاں بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی خواتین کی گرفتاریوں کے کئی محرکات ہیں مگر سب سے زیادہ خواتین کو پرامن مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعض خواتین کو سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے یا اسرائیل کے خلاف مواد پوسٹ کرنے کے جرم میں حراست میں لیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 62 خواتین کو ھشارون اور الدامون نامی جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔ ان میں فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب رکن خالد جرار بھی شامل ہیں جو ایک سال سے انتظامی حراست کے تحت قید ہیں اور مسلسل تین بار ان کی قید میں توسیع کی جاچکی ہے۔

ریاض الاشقر کاکہنا تھا کہ فلسطینی اسیرات میں 43 سالہ خولہ صبیح کو مقبوضہ بیت المقدس سے گولیاں مارنے کے بعد زخمی کرکے حراست میں لیا گیا۔ اس کی دونوں ٹانگوں میں گہرے زخم ہیں اور وہ اسی حالت میں بغیر کسی طبی سہولت کے پابند سلاسل ہیں۔

اسیرات میں ایک ترک خاتون ایبزو اوزکان بھی شامل ہیں جنہیں جون میں بن گوریون ہوائی اڈے سے استنبول جاتے ہوئے حراست میں لیا گیا۔ اگرچہ انہیں رہائی کے بعد گھر پر نظربند کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر اس پرعمل درآمد نہیں کیا گیا۔ عمر رسیدہ اسیرات میں 67 سالہ فرحہ عبد دعنا کا تعلق پرانے بیت المقدس شہر سے ہے۔

چوراسی اسیرات میں 6 کم عمر بچیاں شامل ہیں۔ جن میں 14 سالہ رزان ابو سل 45 دن سے پابند سلاسل ہیں۔ 14 سالہ سارہ نظمی شمسانہ اور 14 سالہ می بسام عسیلہ شامل ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی