تین روز قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اردن کا مختصر دورہ کیا اور اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی۔ دونوں رہ نماؤں کے درمیان یہ چار سال کے وقفے سے ہونے والی ملاقات ہے۔ جبکہ ایک سال پیشتر دونوں ملک ایک سنگین سفارتی تنازع میں الجھے جس کے بعد اردن نے اپنے ہاں متعین اسرائیل کی خاتون سفیر عینات شلائن اور اس کے عملے کو ملک سے نکال دیا تھا۔ کئی ماہ کے تعطل کے بعد چند ماہ قبل دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کے دورہ اردن اور شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کو’فلسطین ۔ اسرائیل کشیدگی کےحل‘ کے تنازع میں ہونے والی مساعی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
گذشتہ برس عمان میں قائم اسرائیلی سفارت خانے کے ایک سیکیورٹی اہلکارزیف مویال نے جولائی کے مہینے میں دو مقامی شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ اس واقعے نے دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا کی اور سفارتی تعلقات معطل ہوگئے۔ اسرائیل نے اس واقعے پربین الاقوامی طریقہ کار اپناتے ہوئے سفارتی کوششوں اور قاتل کے خلاف قانون کارروائی کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ اردنی شہریوں کے قاتل مویال کا تل ابیب میں شاندار استقبال کیا گیا جس پر اردن کی حکومت نے سخت احتجاج کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ دورہ اردن کو غیراعلانیہ بلکہ رازدارانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس کی خبر اس وقت ہوئی جب نیتن یاھو دورہ عمان اور کنگ عبداللہ سے ملاقات کے بعد واپس تل ابیب پہنچ گئے۔
اردنی شاہی دیوان اور اسرائیلی وزیراعظم ہاؤس میں سے کسی نے نیتن یاھو کے دورہ عمان کی خبر دی اور نہ ہی ان کی ملاقات کی تصویر جاری کی گئی۔
عبرانی ٹی وی 10 کے مطابق اردن کے دورے کے دوران نیتن یاھو کے ہمراہ’موساد‘ کے چیف یوسی کوھین بھی موجود تھے تاہم اردن میں متعین اسرائیلی سفیر عمیر فایسپورڈ کو اس ملاقات میں شریک نہیں کیا گیا۔ تاہم اس کی وجہ بھی سامنے نہیں آسکی۔
تصفیے کی کوششیں
ملاقات کے بعد شاہ عبداللہ دوم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیراعظم اور فرمانروا مملکت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ اردن عرب ممالک کی طرف سے پیش کردہ روڈ میپ کے مطابق سنہ 1967ء کی حدود میں بیت المقدس کو دارالحکومت بنائے جانے پر مشتمل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اردن القدس کو غیرمعمولی اہمیت کا حامل قرار دیتا ہے اور اسے خطے میں دیر پا امن کی کلید سمجھتا ہے۔ جب تک القدس کا مسئلہ حل طلب رہے گا تب تک مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اردن فلسطین بالخصوص بیت المقدس کی اسلامی اور مسیحی مقدسات کے دفاع کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کرنے ساتھ مقدس کو لاحق خطرات کے تدارک کے لیے بھی اقدامات جاری رکھے گا۔ القدس اور اس کی مقدسات کا دفاع اردن کی ہاشمی مملکت کی ذمہ داری ہے۔
دونوں رہ نماؤں نے غرب اردن میں ایک دوسرے کی مصنوعات پر عاید کردہ پابندیاں ختم کرنے اور آزادانہ تجارتی معاہدوں اور اردن اور فلسطین میں مشترکہ سرمایہ کاری سے بھی اتفاق کیا۔
امریکی حکام کا دورہ
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور شاہ عبداللہ دوم کے درمیان ایک ایسے وقت میں ملاقات ہوئی جب امریکی حکام کا ایک اعلٰی اختیاراتی وفد بھی مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہے۔ نیتن یاھو سے ملاقات کے بعد شام کو مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی امن مندوب جسین گرین بیلٹ اور امریکی صدر کے مشیر اور ان کے داماد جارڈ کوشنر نے بھی شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اردنی فرمانروا اور امریکی مندوبین کے درمیان ہونے والی ملاقات میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جمود توڑنے اور فریقین کو مذاکرات کی میز پرلانے کی کوششوں سے اتفاق کیا گیا۔ تاہم اس موقع پر اردنی فرمانروا نے واضح کیا کہ عمان قضیہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا خواہاں ہے۔ تاہم انہوں نے قضیہ فلسطین کے حل کے حوالے سے امریکی کردار کو بھی اہمیت کا حامل قرار دیا۔
القدس کے معاملے میں بات کرتے ہوئے اردنی فرمانروا نے کہا کہ بیت المقدس کے تنازع کو فریقین کے درمیان مذاکرات کے آخری مرحلے میں شامل کیاجانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ القدس خطے میں دیر پا امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے اور اس کی حیثیت امن کی کلید کی سی ہے۔
ادھر عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا اپنا امن منصوبہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں پر تھوپنا نہیں چاہتا بلکہ فریقین کو اسے قبول یا مسترد کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاہم امریکی حکام فریقین کو مذاکرات کی میز پرلانے کے خواہاں ہیں۔ امریکی مندوبین گرین بیلٹ اور جارڈ کوشنر فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے بھی ملاقات کی کوشش کریں گے جو کہ چھ دسمبر 2017ء کے بعد سے دونوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا کا شکار ہیں۔