فلسطینی قوم کو ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف اصناف کے صہیونی انتقامی ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے المالح، طورہ اور ام ریحان کے فلسطین باشندوں سے پوچھیں کہ آپ کی سب سے بڑی مشکل کیا ہے تو شاید وہ دیگر مصائب وآلام کے بجائے ’گیٹ نمبر 300‘ کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیں۔
’جنین کا گیٹ نمبر300‘ مقامی فلسطینی شہریوں اور مقامی ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ زیر بحث رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ جنین شہر کے ملازمین یوں یا کسان، خواتین ہوں کا بچے، تاجر ہوں یا صنعت کار سرکاری ملازمین ہوں یا عام شہری ہر ایک کا اس گیٹ کے ساتھ کسی نا کسی طرح واسطہ پڑتا ہے۔
اس گیٹ سے گذرنے کے لیے فلسطینیوں کو صہیونی حکام سے خصوصی اجازت نامے حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ ان اجازت ناموں کا حصول اور اس کےبعد دیگر امور فلسطینی شہریوں کی منظم تذلیل کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔
گیٹ نمبر 300 کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک مقامی شہری محمد زید نے کہا کہ طور قصبے کے باشندوں کو قصبے میں آمد ورفت کے لیے اس گیٹ سے گذرنا پڑتا ہے۔ یہ گیٹ دیوار فاصل کی شکل میں قائم کردہ اس صہیونی جیل کا گیٹ سمجھا جاتا ہے جس نے فلسطینی شہریوں کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔
طور قصبے کے فلسطینی میئر زید یوسف زید نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرت ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی مشکلات میں ایک نئی مشکل گیٹ نمبر 300 ہے۔ وہاں سے فلسطینیوں نے گذرنا یو یا انہیں سامان لے جانا ہوں تلاشی اور شناخت کی آڑ میں انہیں توہین آمیز حربوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گیٹ کی دوسری طرف فلسطینی شہریوں کی فصلوں کو تباہ کیا جانا اور انہیں نقصان پہنچانا اب معمول کی بات رہ گئی ہے۔
‘گیٹ نمبر300‘ کو طورہ اور ام ریحان کے باشندوں کا داخلی اور خارجی گیٹ قرار دیا جاتا ہے۔ مقامی شہری عبداللہ الخطیب نے بتایا کہ صہیونی فوجی فلسطینی کسانوں کو اپنی زمینوں اور فصلوں کو دیکھنے کے لیے اس گیٹ سے گذرنے کی اجازت نہیں دیتے اور یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ فلسطینی وہاں گے گذر کر فوجیوں پر سنگ باری کرتے ہیں۔
بچے اور گیٹ 300
طورہ اور ظہر المالح کسی دور میں ایک قصبہ ہوا کرتھا تھا مگر اب اس کے درمیان ’گیٹ 300‘ قائم کرکے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ کچھ فلسطینیوں کے مکانات گیٹ سے باہر کی طرف ہیں اور ان کے بچوں کو اسکولوں کے لیے گیٹ سے روزانہ کی بنیاد پر گذرنا پڑتا ہے۔
ظہر المالح کے مقامی طالب علم امجد الخطیب نے کہا کہ وہ 9 سال کی عمر سے اس گیٹ کو عبور کررہے ہیں۔ انہیں اسکول جانے کے لیے روزانہ دو بار اس گیٹ کو عبورکرنا پڑتاہے۔ وہاں پر فلسطینی بچوں اور خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ ناقابل بیان اور توہین آمیز ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے الخطیب نے کہا کہ صہیونی فوجی اسے اور دیگر تمام طلباء کی کتابوں تک کی الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے تلاشی لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ان کی آمد ور فت دونوں اوقات میں جاری رہتا ہے۔
ظہر المالح قصبے کے قریب قائم گیٹ 300 اور اس کے اطراف میں تین اطراف میں یہودی کالونیاں قائم ہیں۔ ان میں شاکید کالونی مشرق کی سمت ہے جو صرف 350 میٹر کی دوری پر ہے۔ شمال کی طرف 500 میٹر دور حانیت کالونی اور یہودی اسکول عومر جب کہ مغرب میں تل منشہ یہودی کالونی واقع ہے جو صرف ایک ہزار میٹر دور ہے۔