اسرائیلی بحریہ نے بدھ کے روز فلسطینی ماہی گیروں کی ایک کشتی پر حملہ کر دیا، جس سے ان کی کشتی کھلے سمندر میں الٹ گئی ، تاہم اس میں سوار پانچ ماہی گیروں کو بروقت امدادی کارروائی کے ذریعے زندہ بچا لیا گیا۔ حملہ کے وقت فلسطینی ماہی گیر غزہ کی پٹی پر شمالی ساحلی علاقے میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔
غزہ میں ماہی گیروں کی انجمن نے بتایا کہ عمر الھبیل نامی مچھیرے کی کشتی پر اسرائیلی بحریہ کی مشین گنوں سے لیس کشتی نے شمالی غزہ کے ساحلی علاقہ الواحہ میں حملہ کیا جس کے بعد کشتی کھلے سمندر میں الٹ کر ڈوب گئی۔
امدادی کارروائی کے نتیجے میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار پانچوں ماہی گیروں کو زندہ بچا لیا گیا۔
اسی روز اسلحہ سے لیس اسرائیلی کشتی نے جنوبی غزہ کے علاقے خانیونس کے ساحلی علاقے سے مچھلیاں پکڑنے والے فلسطینی مچھیروں پر فائرنگ کی۔ خوش قسمتی سے اس فائرنگ میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
روزمرہ کی بنیاد پر اسرائیلی بحریہ کی گن بوٹس غزہ کے ماہی گیروں کا پیچھا کر کے انہیں ہراساں کرتی ہیں، ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور ان کی کشتیوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ان کارروائیوں میں زندہ بچنے والوں کو اسرائیلی سیکیورٹی اہلکار گرفتار کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات کھلے سمندر میں اسرائیلی بحریہ کی فائرنگ سے فلسطینی مچھیرے ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں۔
اوسلو معاہدہ [1993] کے تحت فلسطینی ماہی گیروں کو غزہ کے ساحل سے 20 سمندری میل کی حدود میں کھلے سمندر سے مچھلیاں پکڑنے کی اجازت ہے، لیکن معاہدے کے بعد اور غزہ محاصرہ شدید کرنے کرنے کی غرض سے اسرائیل ماہی گیری کی بین الاقوامی طور پر طے کردہ حدود میں از خود کمی کرتا چلا آ رہا ہے، جو اب گھٹ کر تین سمندری میل تک رہ گئی ہے۔
ماہی گیروں اور انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ 2008-2009 میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد سے اسرائیلی فوج سمندر میں ماہی گیری کو محدود کرتے کرتے ساحل تک لے آئی ہے۔