اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ ماہ نیویارک میں یہودی اداروں کے سربراہان کے ساتھ ایک ملاقات میں فلسطینی رہنماؤں پر شدید تنقید کی تھی۔
اسرائیل کے چینل 10 کی رپورٹ کے مطابق سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے ستائیس مارچ کے روز نیویارک میں یہودی اداروں کے سربراہان سے بند دروازوں کے پیچھے کی گئی ایک ملاقات کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطینی صدر ٹرمپ کی امن سے متعلق تجاویز قبول کریں یا اپنا منہ بند رکھیں‘۔
رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کے بیانات کی تصدیق نیویارک سے اسرائیلی وزارت خارجہ کو بھیجی گئی ایک کیبل کے علاوہ تین دیگر ذرائع نے بھی کی تھی۔
ان ذرائع کے مطابق محمد بن سلمان نے یہودی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا، ’’گزشتہ دہائیوں کے دوران فلسطینی رہنماؤں نے یکے بعد دیگرے امن کے کئی مواقع گنوائے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی صدر ٹرمپ کی پیش کردہ تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئیں یا پھر وہ اپنا منہ بند رکھیں اور شکایت کرنا بند کریں۔‘‘
محمد بن سلمان کے نام منسوب اس مبینہ بیان کو اسرائیل کے علاوہ غیر ملکی میڈیا نے بھی شائع کیا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی شہزادہ محمد بن سلمان سے وابستہ اس بیان کے حوالے سے ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ اسرائیلی اور اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے صارفین اس پیش رفت کی تعریف کر رہے ہیں جب کہ فلسطین اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین کی جانب سے شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ ملاقات کے دوران محمد بن سلمان نے یہودی تنظیموں کے رہنماؤں کو یہ بھی بتایا کہ فلسطین کا معاملہ سعودی عرب اور اس کے عوام کی ترجیحات میں فی الوقت شامل نہیں ہے کیوں کہ ان کا ملک خطے میں ایرانی اثر و رسوخ جیسے اہم امور سے نمٹنے میں مشغول ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین امن عمل میں کسی واضح پیش رفت کے بغیر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات شروع نہیں کیے جا سکیں گے۔
عبرانیی ٹی وی کے رپورٹر نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد بن سلمان کی گفتگو سن کر ان سے ملاقات کرنے والے یہودی تنظیموں کی رہنماؤں کی کیفیت یوں تھی ‘جیسے کوئی بیٹھے بیٹھے سچ مچ اپنی کرسی سے گر پڑے‘۔
خیال رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے فلسطین کے حوالے سے متنازع بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں انہیں کئی ایسے متنازع بیانات کے باعث فلسطین کے حامی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا ہدف بننا پڑا ہے۔