فلسطین میں سنہ 2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کی غیرمعمولی کامیابی نے مغربی انٹیلی جنس اداروں بالخصوص امریکی اور صہیونی ریاست کے سیکیورٹی اداروں کو ہلا کررکھ دیا۔ مغرب، فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل اور امریکیوں نے غزہ کی ناکہ بندی کے ساتھ غرب اردن میں بھی فلاحی شعبے کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا۔ غرب اردن میں حماس کے زیراہتمام چلنے والے فلاحی اداروں پر انتقام کی تلوار چلائی گئی جس کے نتیجے میں مالی طور پرغیرمستحکم اور نادار خاندانوں کی بڑی تعداد امداد سے محروم ہوگئی۔ دسیوں فلاحی ادارے بند کردیے گئے یا ان کی امداد روک کر حماس کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور حماس کے امور کے ماہر ابراہام سیلع نے اپنی مشہور زمانہ تالیف’عصر حماس‘ مرتبہ سنہ 1996ء میں لکھا کہ غرب اردن میں فلاحی سیکٹر پرحماس کا کنٹرول صہیونی ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ نیٹ ورک نہ صرف فلاحی شعبوں میں کام کرتا ہے بلکہ عزالدین القسام بریگیڈ کی سرگرمیوں میں بھی ممد ومعاون ہے۔
صہیونی ریاست نے اس غیر مرئی خطرے کو بھانپتے ہوئے غرب اردن میں فلاحی ، رفاہی اور سماجی شعبوں میں کام کرنے والے سیکڑوں اداروں اور تنظیموں کو غیرقانونی قرار دے کر ان پر پابندی لگانا شروع کردی۔
فلاحی عمل کا تعاقب
صہیونی ریاست نے ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت غرب اردن میں فلاحی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس ضمن میں غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں کئی اداروں کو بند کردیا گیا۔ ان میں جمعیہ الشبان المسلمین، جمعیہ الاحسان الخیریہ، اسلامی ثقافتی مرکز، رابطہ علماء فلسطین اور کئی دوسری تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے کر ان پر پابندی عاید کرنا شروع کردیں۔ ان کے ذمہ داران اور سربراہان کو حراست میں لینے کے ساتھ ان کے دفاتر کو سیل، عملے کو زدو کوب اور سامان کو قبضے میں لے لیا گیا۔ بدقسمتی سے فلسطین میں نادار شہریوں کی بہبودکے لیے سرگرم ان فلاحی تنظیموں کی بندش میں صہیونی ریاست کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں نے بھی بھرپور قوم دشمنی کاکردار ادا کیا۔
فلسطینی اتھارٹی نے حماس کے زیرانتظام چلنے والے بعض اداروں کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان پرمن پسند افراد کا تقرر کیا۔ ان میں اخلیل الشبان المسلمین کو فلسطینی اتھارٹی کے ایک سیکیورٹی عہدیدار کیپٹن شادی سدر، الاحسان الخیریہ کو کرنل عرفات النتشہ، الخیریہ الاسلامیہ کوفلسطینی اتھارٹی کے مقرب ایک سابق جج حاتم البکری کو سربراہ بنایا گیا جب کہ اسلامی ثقافتی مرکز اور رابطہ علماء کو بند کردیا گیا۔
یوں پورے غرب اردن میں بالعموم اور الخلیل شہرمیں بالخصوص فلاحی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ بہت پیچھے چلی گئیں۔ شہریوں کو خوراک اور نقدی کی شکل میں ملنے والی امداد بند ہوگئی۔
پرانے الخلیل شہر سے تعلق رکھنے والے 77 سالہ الحاج حسن التمیمی نے کہا کہ وہ کئی سال سے شہرمیں سماجی سرگرمیوں میں سرگرم رہےہیں۔ انہوں نے بے سہارا شہریوں کی امداد کے لیے کام کرنے والے اداروں کی بندش کے ذمہ داروں کو بدعائیں دیں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کی حمد وثناء سے ہم بہت بڑی نعمت کے استفادہ کرتے رہے ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہیکہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل دونوں نے مل کر شہر کے ہزاروں بے سہارا افراد کو محروم کردیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن میں زکاۃ، صدقات اور کئی دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے اداروں میں جمعیہ الشبان المسلمین سرگرم رہی۔ یہ تنظیم شہریوں میں ماہانہ مالی وظائف کے ساتھ ساتھ خوراک کے پیکٹ، خوردنی تیل، چاول اور آٹا بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی دینا بھی اس کی سرگرمیوں میں شامل رہا جو مستحق شہریوں میں بڑی مقدار میں گوشت تقسیم کیا جاتا تھا۔
ملازمین کی گرفتاریاں
جمعیہ الخیریہ کے سابق ملازم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ انہیں تنظیم کے ساتھ وابستگی اور اس کے انتظامی امور کو چلانے کی پاداش میں 18 ماہ قید میں رکھا گیا اور اس شرط پررہا کیا گیا کہ میں دوبارہ اس تنظیم میں کے لیے کام نہیں کروں گا۔ میں نے مجبورا تنظیم چھوڑ دی اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
انہوں نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی کارروائی کا شکار ہونے والے تنہا نہیں بلکہ اس کے کئی ساتھیوں کو اسی طرح انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
غرب اردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ساتھ عباس ملیشیا نے بھی حماس کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کا اصل مقصد حماس کے ریلیف نیٹ ورک پر کاری ضرب لگانا ہے۔
ایک اور شہری عبدالرحمان ابو اسنینہ نے کہا کہ انہیں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے 22 روز تک مسلسل حراست میں رکھا گیا۔ اس دوران اسے طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ سماجی تنظیموں کی جانب سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر شہریوں میں قربانی کا گوشت اور حلویات تقسیم کرنا تھا۔