صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں میں 49 سالہ عبدالحلیم ساکب عمر البلبیسی کو 23 بار تاحیات عمرقید کی سزاا کا سامنا ہے مگر اس کے باوجود اسیر نے رہائی کی امید ختم نہیں کی۔ اسے یقین ہے کہ اس کی زندگی میں وہ صبح ضرور آئے گی جب وہ رہائی اور آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوگا۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں اس فلسطینی بطل حریت کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ اسیر تین بچوں کا باپ ہے۔
البلبیسی کون؟
رواں سال کے اختتام تک عبدالحلیم ساکب عمر البلبیسی کی اسیری کا عرصہ 23 سال ہوجائے گا۔ اسرائیلی زندانوں میں قید رہنے والے فلسطینی جنہوں نے البلبیسی کو ایک ایک خاموش طبع شخص کے طورپر جانتے ہیں مگر کسی کو یہ معلوم نہیں کہ ان کی اس پراسرار خاموشی کاراز کیا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عمر البلبیسی کی سزائے قید 23 سال ہوچکی ہے۔ ان کے تین بچے اب جوان ہوچکے ہیں مگرالبلبیسی کو اپنے بچوں کی بہت زیادہ یاد ستاتی ہے۔
عبدالحکیم عمر البلبیسی تین اپریل 1969ء کو غزہ کی پٹی میں جبالیا پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کیمپ کے تین اسکولوں سے حاصل کی۔ اتبدائی تعلیم کے بعد انہوں نے درزی کا پیشہ اختیار کیا اور درزی کا کام کرتے ہوئے وہ ایک کاروباری شخصیت بننے لگے۔ اس دوران انہوں نے شادی کی اور ان کے تین بچے عماد، شیما ارو احمد پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی شہر سنہ 1948ء کا علاقہ ’برقہ‘ ہے جسے صہیونی فوج نے مسمار کردیا تھا۔ ان کے بہن بھائیوں میں پانچ بھائی اور پانچ بھائی ہیں۔
اسلامی جہاد سے وابستگی اور گرفتار
عبدالحلیم کی زندگی میں تحریک انتفاضہ کے دوران ایک نئی تبدیلی آئی۔ انہوں نے اسلامی جہاد سے وابستگی اختیار کی اور پہلی بار اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے پہلے سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ اسلامی جہاد کے عسکری ونگ میں مصروفیات شروع کردیں۔
چھ دسمبر 1995ء کو عبدالحلیم بیت حانون گذرگاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کا ارادہ غرب اردن کی طرف جانے کا تھا مگر گذرگاہ پر اسرائیلی فوج نے انہیں حراست میں لیا۔ ان پر 22 جنوری 1995ء کو بیت لید کے مقام پر ایک کارروائی میں حصہ لینے کا الزام عاید کیا۔ اس کارروائی میں صلاح شاکر اور انور سکر شامل تھے۔ گرفتاری کے بعد انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور 23 بارعمر قید کی سزا سنائی گئی۔
خیال رہے کہ بیت لید میں اسلامی جہاد کے کارکنوں نے ایک دہری فدائی کارروائی کی تھی جس میں دو فلسطینی مزاحمت کار انور سکر اور صلاح شاکر شہید ہوگئے تھے۔ اس حملے میں 24 صہیونی فوجی جہنم واصل اور 140 زخمی ہوگئے تھے۔
اسیر البلیسی کا شمار پرانے فلسطینی اسیران میں ہوتا ہے۔ وہ جیل میں تھے جب ان کے والد اور والدہ انتقال کرگئے۔ وہ سب سے پہلے المجدل جیل میں ڈالے گئے جیاں سے انہیں بئر سبع کی جیل منتقل کردیا گیا۔ وہاں وہ چار ماہ تک قید تنہائی میں رہے۔ اس دوران انہیں ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ وہ اس وقت صحرائی جیل النقب میں قید ہیں جہاں انہیں بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں۔
تصاویر سے شناخت
البلبیسی کا خاندان شمالی غزہ میں رہائش پذیر ہے۔ ان کے بیوی بچے تو انہی علاقوں چلتے پھرتےہیں۔ وہیں وہ پلے بڑھے۔ وہ اپنے والد کو صرف تصاویر میں شناخت کرتے ہیں۔
البلبیسی کے بڑے بیٹے عماد کا کہنا ہے کہ مجھے وہ لمحہ آج تک نہیں بھولا جب ہم اپنے والد کو جیل میں الوداع کہہ رہے تھے۔ انہیں گیلاد شالیت ڈیل میں بھی رہا نہیں کیا گیا۔ ہمیں اپنے والد کی صرف تصاویر ڈھارس بندھاتی اور امید دلاتی ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں تصاویرہی ہمارا سہارا ہیں۔
اسیر البلبیسی کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو اسیر سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر اجازت مل بھی جائے اس میں کئی سنگین نوعیت کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔
البلبیسی کا شمار ان فلسطینیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 20 سال صہیونی زندانوں میں قید کاٹی۔ ایسے اسیران کی تعداد 50 ہے۔ ان میں سے 29 اسیران اوسلو معاہدےسے بھی پہلے کے پابند سلاسل ہیں۔