تیس مارچ ’یوم الارض‘ کا دن قریب آتے ہی صہیونی ریاست کےخوف میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں نے’واپسی‘ ملین مارچ اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان نے صہیونی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب فلسطینی عوام طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست پرغزہ کی بند گذرگاہوں کو کھولنے کے لیے احتجاج کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ سنہ 1976ء میں غزہ کے اطراف سے نکالے گئے علاقوں میں واپسی کے لیے پرعزم فلسطینی ایک عظیم الشان ملین مارچ کرنے جا رہے ہیں۔’واپسی ملین مارچ‘ کے تین اہداف ہیں۔ پہلا سنہ 1948ء کے دوران فلسطین سے بے دخل کیے گئے علاقوں میں واپس جانا، سنہ 1976ء اور اس کے بعد فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے خلاف احتجاج اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی مسلط کردہ پابندیاں ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ مادی اور دفاعی فوجی صلاحیت کے اعتبار سے صہیونی ریاست اور فلسطینی قوم کےدرمیان کوئی مقابلہ نہیں مگر فلسطینیوں کے پاس عوامی طاقت کے اظہار کا حق ہے اور وہ اپنا یہ حق صہیونی ریاست سے چھین کر لے سکتےہیں۔ فلسطینیوں کی واپسی ریلیاں صہیونی ریاست پر اخلاقی، سیکیورٹی اور فوجی دباؤ بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو ان کے حق واپسی سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ عالمی اداروں نے فلسطینی پناہ گزینوں کا حق واپسی تسلیم کر رکھا ہے۔ اگر اسرائیل اپنے گھروں کو واپس جانے والے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرنا چاہتا ہے تو یہ اس اقدام صہیونی ریاست کی مجرمانہ دہشت گردی تصور کیا جائے گا جسے دنیا میں کسی بھی حوالے سے قابل قبول اور درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
قانونی تحریک
فلسطینی تجزیہ نگار وسام ابو شمالہ کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کو خدشہ ہے کہ فلسطینیوں کا واپسی ملین مارچ ایک قانونی عوامی پرامن تحریک کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اگر فلسطینیوں کی بڑی تعداد غزہ، غرب اردن اور بیرون ملک مقیم ایک جگہ جمع ہوجاتی ہے تو یہ صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ فلسطینیوں کی پرامن واپسی ریلیوں کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ عالمی قراردادیں ان کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں اور اسرائیل آج تک ان کے اس حق کو انہیں دینے میں پس پیش سے کام کرتا آیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو شمالہ نے کہا کہ فلسطینیوں کی پُرامن ریلیوں پر بھی اسرائیل کو فوجی طاقت کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہوگا کیونکہ صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کے حق واپسی کو روکنے اور دیگر تمام حقوق کو دبانے کے لیے کوشاں ہے۔ فلسطینیوں کا حق واپسی کے لیے ملین مارچ کا اعلان صہیونیوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ فلسطینی اپنے گھروں اور علاقوں کو واپس جانا چاہتے ہیں اور انہیں واپس جانے کا عالمی قانون کے مطابق پورا پورا حق حاصل ہے۔
عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی 7 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایک نیا ڈرون طیارہ تیار کیا ہے جو فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کی شیلنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس ڈرون طیارے کا مقصد غزہ کی سرحد پر جمع ہونےوالے لاکھوں فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کی شیلنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ٹی وی رپورٹ کے مطابق ڈرون طیار پر آنسوگیس شیل فائر کرنے والی چھ بندوقیں نصب ہیں جو وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کے احتجاج کو دبانے کے لیے استعمال ہوں گی۔
ابو شمالہ نے کہا کہ اسرائیل انسانی، عالمی اور تاریخی استحاق سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ اسرائیلی فوج انسانی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتی ہے۔ مگر صہیونی فوج کا آنسوگیس شیلنگ کرنے والا ڈرون قابض فوج کی رعونت اور طاقت کے وحشیانہ استعمال کی وجہ سے دنیا بھر میں صہیونی ریاست کوبدنام کرنے کا موجب بنے گا۔
اخلاقی بالاتری
فلسطینی تجزیہ نگار احمد ابو ارتیمہ کاکہنا ہے کہ صہیونی ریاست کو جس بات کا خوف اور خدشہ ہے وہ یہ کہ فلسطینی اخلاقی اعتبار سے صہیونی ریاست پر بالا تری رکھتے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل تباہی بربادی، جنگ اور فوجی اعتبار سے فلسطینیوں پر بالاتری رکھتا ہےمگر فلسطینی قوم اخلاقی اعتبار سے صہیونی ریاست پر فوقیت رکھتی ہے۔ فلسطینی اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کررہےہیں۔ وہ حقوق جنہیں عالمی برادری نے بھی تسلیم کر رکھا ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین اور وطن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فلسطینی بجا طورپر یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل اگر جمہوری ریاست ہے تو وہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں آباد ہونے سے کیوں روک رہا ہے۔ جمہوریت میں تو اپنے حقوق کے لیے پرامن جدو جہد اور پرامن مظاہروں کا حق ہوتا ہے۔
تزویراتی ہتھیار
تجزیہ نگار عصام حماد نے کہا کہ اسرائیل کو یہ خدشہ ہے کہ فلسطینی پہلی بار حق واپسی کے لیے بڑے پیمانے پر پرامن مظاہروں کی شکل میں منظم ہو رہےہیں۔ فلسطینیوں نے یہ تزویراتی ہتھیار پہلے استعمال نہیں کیا۔ یہ ایسا تزویراتی ہتھیار ہے جسے استعمال کرنے کا عالمی برادری، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی طرف سے انہیں حق دے رکھا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست عالمی قوانین کی رو سے پرامن فلسطینی ریلیوں پر طاقت کا استعمال کرنے کی مجاز نہیں۔ سرائیل نے عالمی قوانین کے اداروں اور اقوام متحدہ کی رکنیت تک لے رکھی ہے۔
صہیونی ریاست کی لیڈر شپ کی تشویش واضح ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی طرف سے کسی بھی احتجاج کو آرام سے نمٹنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہرطرح کے سینیاریو کے لیے تیار ہیں اور کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔