اطلاعات کے مطابق ایک فوجی مشق میں دشمن کی تصویر اصل میں ترکی کے بانی قائد مصطفیٰ کمال اتاترک کی تھی۔ ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک سوشل میڈیا پر ترک صدر طیب رجب ایردوآن کے نام سے ایک جعلی اکاؤنٹ سے نیٹو مخالف پیغامات بھی بھیجے گئے ہیں۔
ان واقعات کے ردِعمل میں ترکی نے مشقوں میں شریک اپنے 40 فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے۔ نیٹو میں ترکی کی دوسری بڑی فوج ہے اور ترکی ’داعش‘ کے خلاف اتحاد اور افغانستان میں نیٹو مشن دونوں کا حصہ ہے۔
ناروے کے وزیرِ دفاع نے اس واقعے کے بعد معافی مانگی ہے اور انھوں نے اس واقعے کی ذمہ داری ایک انفرادی شخص پر ڈالی۔
ترک براڈ کاسٹر این ٹی وی کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث وہ ایک شخص ترک نژاد ناروے کا فوجی ہے۔ ناروے کے وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ناروے کا فوجی ایک ٹھیکیدار تھا جسے ان مشقوں کے لیے رکھا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ادھر نیٹو کے سیکرٹری جنرل جنز سٹولٹنبرگ نے بھی اس حوالے سے معافی مانگی ہے اور ترکی کو نیٹو کے فوجی اتحاد کا اہم حصہ قرار دیا۔ ترکی کی عسکری اور اسٹریٹیجک اہمیت کے باوجود شام، ایران اور عراق کے ساتھ متصل سرحدوں کی وجہ سے ترکی کے مغربی ممالک کے ساتھ گذشتہ چند سالوں سے تعلقات میں تناؤ رہا ہے۔
صدر ایردوآن نے سرِعام آسٹریا، جرمنی، اور ہالینڈ کے ساتھ سفارتی لڑائی لڑی ہے جب انھوں نے ترکی کے شہریوں کی سیاسی ریلیوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔
ادھر ترکی نے روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوششیں کی ہیں اور شام میں فضائی کارروائیاں میں دونوں ممالک نے تعاون بھی کیا ہے۔
ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت بھی تاخیر اور دیگر مشکلات کا شکار ہے۔