حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے برطانیہ کے صدر مقام ’شیتم ہاؤس‘ میں 80 منٹ طویل خطاب کیا۔ اپنے اس خطاب میں نیتن یاھو نے فلسطینی ریاست کے مستقبل کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے فلسطینی ریاست کے ممکنہ قیام کے حوالے سے خیالات پرمبصرین نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو کی گفتگو دراصل عدالتوں میں اپنے خلاف جاری کرپشن کیسز سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
نیتن یاھو کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کو قبول کرسکتے ہیں جس کی کوئی متعین سرحدیں نہ ہوں۔ وہ مکمل آزاد اور خود مختار نہ ہو۔ اس کی گذرگاہیں اور فضاء اسرائیل کے کنٹرول میں ہو۔ ان کے ساتھ ساتھ اس فلسطینی ریاست میں قائم کی گئی یہودی کالونیاں اپنی جگہ موجود رہیں۔ ان کے اس نئے تصور سے کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار اشرف بدر نے کہا کہ نیتن یاھو کا پیش کردہ ’ویژن‘ حیران کن ہے۔ وہ دراصل ’بینٹ‘ پارٹی کا پلان پیش کررہے ہیں۔ یہ جماعت غرب اردن کے سیکٹر ’C‘ میں فلسطینیوں کو عارضی خود مختاری دینے کی بات کرتی رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے میں مستقبل میں اس طرح کا کوئی فارمولہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسے کسی بھی فارمولے کو عملی شکل دینے کے لیے فلسطینی، علاقائی اور عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہونا ضروری ہے۔ ایسی بے دست وپا فلسطینی ریاست کا تصور فلسطینی پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ اسے عرب اور مسلمان ممالک بھی قبول نہیں کریں گے۔ عالمی سطح پر بھی ایسے بے معنی تصور کو پذیرائی اور حمایت ملنا مشکل ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو اس طرح کے بیانات اور بے معنی تصورات پیش کرکے دراصل بتانا چاہتے ہیں کہ وہ تنازع فلسطین کے حل کے لیے کوئی سیاسی پروگرام رکھتے ہیں۔
اشرف بدر کا کہنا ہے کہ متعین سرحدوں کے بغیر فلسطینی ریاست کا تصور اور وہ بھی یہودی کالونیوں کو ختم کئے بغیر صہیونی انتہا پسندوں کے مفاد میں تو ہوسکتا ہے مگر فلسطینی قوم کے مفاد میں نہیں۔ آخر کار یہ ثابت ہوگا کہ نیتن یاھو محض سیاسی مشقیں کررہے ہیں۔ دراصل وہ فلسطینی ریاست کو عملا قائم ہونےسے روکنے کے لیے اس طرح کے نام نہاد منصوبے پیش کرتے ہیں۔
فلسطینی ایسا کوئی بھی حل قبول نہیں کریں گے۔ البتہ امریکا اسرائیل کی خوش نودی کے لیے ایسا کوئی تصور مان لے مگر حتمی طور پر ایسا کوئی بھی تصور عملا کامیاب نہیں ہوسکتا۔
فلسطینی تجزیہ نگار ھشام الشرباتی کا کہنا ہے کہ بلا حدود فلسطینی ریاست کا تصور اسرائیل کے زوال کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔ سیاسی سطح پر خود اسرائیل میں بھی ایسا کوئی تصور قبول نہیں کیا جائے گا۔
الشرباتی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے اسرائیلی بلا حدود فلسطینی ریاست کے تصور کو اسرائیل کے اختتام کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ اسرائیل کے لیے انتہائی تباہ کن اور پرخطر فارمولہ ہوگا۔ مستقبل میں فلسطینی اپنی بلا حدود فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرکے اسرائیل سے بساط کھینچ سکتے ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں الشرباتی کا کہنا ہے کہ دراصل نیتن یاھو ایک بے دست وپا فلسطینی ریاست کا تصور پیش کرکے علاقائی اور عالمی توجہ کو گڈ مڈ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی فارمولا عملا نافذ نہیں ہوسکتا۔