اسرائیل کے عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی چینل 2 نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں ابتر معاشی صورت حال اور اس کے سنگین نتائج ومضمرات کےحوالے سے ایک رپورٹ میں خبردارکیا ہے کہ غزہ کی معاشی ابتری کسی بھی لمحے آتش فشاں بن کر پھٹ سکتی ہے۔
ٹی وی رپورٹ کو’غزہ تباہی کے دہانے‘ پر کا عنوان دیا گیا۔ رپورٹ میں اسرائیل کے عسکری اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیالات بیان کیے گئے ہیں جن میں اںہوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پرعاید پابندیاں مقامی آبادی کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں غزہ کا علاقہ کسی بھی وقت آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کی معاشی اور سماجی زندگی بدترین تباہی سے دوچار ہے۔ سنہ 2007ء میں حماس کی کامیابی اور اس کی حکومت کے قیام کے بعد اسرائیل نے غزہ پر مسلط اقتصادی پابندیاں عاید کررکھی ہیں جن کے نتیجے میں عام زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے حماس پر دباؤڈالنے اور جماعت کو ہتھیار پھینکنے کے لیے غزہ پر پابندیاں عاید کی تھیں مگر اسرائیل کی یہ پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ حماس نے دباؤ میں آکر نہ تو ہتھیار ڈالے ہیں اور ہی آئندہ ایسا ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں دو ملین لوگ انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی سدرن کمانڈ کے سابق سربراہ جنرل سامی ترجمان کا موقف بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس کسی نئی جنگ میں ہارنے کے لیے کچھ نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ آتش فشاں پر کھڑا ہے جو کسی بھی وقت دھماکہ سے پھٹ سکتا ہے۔
موساد کے سابق چیف افرایم ھالیوی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ غزہ کی صورت حال کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات شروع کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات نہ کرکے اسرائیل کی آئندہ نسلوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جنرلی ہالیوی کا کہناہے کہ غزہ کی پٹی پر بار بار جنگ مسلط کرکے حماس کو دباؤ میں لانے کی ناکام کوششوں کے بعد اب مذاکرات کاتجربہ کرنا بھی ضروری ہے۔
اسرائیلی ریزرو فوج کے سابق سربراہ جنرل عاموس گیلاد کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے مسئلے کا حل ناگزیر ہے۔ حکومت کو ادراک کرنا ہوگا کہ آیا حماس کیا چاہتی اورکیا کرتی ہے۔