اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز کے بعد اذاں اور نمازوں کی ادائی پر پابند پر ترکی کی حکومت اور عوامی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے مسجد اقصیٰ [قبلہ اول] میں اذان اور نماز کی ادائی پر پابندی کو عالم اسلام کی توہین کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد جب سے اسرائیل نے القدس پرقبضہ کیا ہے یہ پہلا موقع ہے جب قبلہ اول میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے پر پابندی عاید کی گئی ہے۔
ترک وزیراعظم نے قبلہ اول کو فلسطینی نمازیوں کے لیے بند کیے جانے کو ناقابل قبول، عالمی قوانین اور مذہبی آزادیوں کے منافی اور انتہائی خطرناک اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ قبلہ اول میں فلسطینی نمازیوں کے داخلے پر مزید پابندی سے حالات زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ توقع ہے اسرائیل حالات کو زیادہ خراب کرنے کی حماقت نہیں کرے گا۔
ادھر بیرون ملک قائم فلسطینی علماء کونسل، ترک علماء کونسل اور دیگر عوامی اور مذہبی اداروں نے قبلہ اول کی بندش کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قبلہ اول پر پابندیاں فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کے خلاف اسرائیل کی مذہبی دہشت گردی کا تسلسل ہیں۔
گذشتہ روز ترکی کے شہر استنبول میں قبلہ اول کے دفاع کے لیے ایک کانفرنس کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں سرکردہ حکومتی اور مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے خطابات میں قبلہ اول پر اسرائیلی پابندیوں کے فوری خاتمے پر زور دیا۔ مقررین نے کہا کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ قبلہ اول کی بندش فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کا رد عمل نہیں بلکہ اسرائیل کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔
خیال رہے کہ جمعہ کو مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج نے تین فلسطینی نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔ قبل ازیں اسرائیلی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ فلسطینی نوجوانوں نے فائرنگ اور چاقو کے حملے میں دو اسرائیلی پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور ایک کو زخمی کردیا تھا۔
ترک حکام ، وزراء اور مذہبی شخصیات نے عالم اسلام پر زور دیا ہے کہ وہ قبلہ اول کے دفاع کے حوالے سے موثر اور متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ قبلہ اول کا دفاع صرف فلسطینی قوم کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ پورے عالم اسلام کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔