’تمام عہدے اور تمام مناصب تم لےلو اور ہمیں ہمارا وطن دے دو‘۔ یہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل الفاظ کسی قاید اور ملک و قوم سے بے لوث محبت اور وفاداری کا دم بھرنے والے لیڈر ہی کے ہوسکتے ہیں۔
بلا شبہ یہ الفاظ ایک ایسے عظیم فلسطینی سپوت کے ہیں جس نے اپنی جوانی اور اس کے بعد کی پوری زندگی فلسطینی قوم کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ حال ہی میں اس فلسطینی بطل حریت اور بطل جلیل کو اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کا نیا قاید منتخب کیا گیا۔
یہ فلسطینی قاید اسماعیل ھنیہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ گذشتہ 30 برس سے حماس کے ایک مُخلص کارکن سے ہوتے ہوئے جماعت کی صف اول کی قیادت تک پہنچے ہیں۔ انہیں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ کے عہدےکے لیے منتخب کیا گیا۔ خالد مشعل جماعات کے سیاسی شعبے کے 1996ء سے سربراہ چلے آرہے تھے۔
اسماعیل ھنیہ نے حماس کے زیرانتظام سرگرمیوں کا آغاز طالب علمی دور میں کیا دن رات جماعت کی ترقی اور قوم کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیل ھنیہ مضبوط موقف کا حامل اور ’متفقہ علیہ‘ شخصیات میں رہ نما قرار دیے ہیں۔
حماس کے اندر بھی اسماعیل ھنیہ کو ایک غیر معمولی طور پر مقبول لیڈر شمار کیا جاتا ہے۔ جماعت کے اندرونی تعلقات، ساحلی پناہ گزین کیمپ جہاں انہوں نے زندگی گذاری ، غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں جماعت کے تمام ذیلی حلقوں میں انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
طالب علم دور میں انہوں نے غزہ میں اسلامی یونیورسٹی کے اسپورٹس کلب کی قیادت سنھبالی۔ اندرون اور بیرون فلسطین بھی اپنے حلقہ احباب اور حلقہ اثر میں اضافہ کیا۔ بیرون ملک مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی حامی شخصیات ان کے دائرے میں شامل ہوئے۔
اگرچہ اسماعیل ھنیہ کو جماعت کے کئی کلیدی عہدوں پر تعینات کیا گیا مگر انہوں نے ساحلی پناہ گزین کیمپ سے باہر اپنی رہائش گاہ منتقل نہیں کی۔ وہ وہیں فلسطین کی سرکردہ شخصیات ان سے ملاقاتیں کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے اس ساحلی پناہ گزین کیمپ کو سیاسی اور قومی نوعیت کی سرگرمیوں کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اسماعیل ھنیہ امامت اور جمعہ و عیدین کی خطابت کی ذمہ داریاں بھی انجام دیتے رہے ہیں۔
اسماعیل ھنیہ ہمہ جہت شخصیت
حماس کے سیاسی شعبے کے نو منتخب صدر کا پورا نام اسماعیل عبدالسلام ھنیہ ہے۔ وہ 23 مئی 1963ء کو غزہ کے ساحلی علاقے میں قائم پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 54 برس ہے۔ اسماعیل ھنیہ کا خاندان سنہ 1948ء میں مقبوضہ فلسطینی شہر عسقلان سے ھجرت کرکے غزہ میں آباد ہوا۔ اسماعیل ھنیہ نے ابتدائی تعلیم غزہ میں اقوام متحدہ کی قائم کردہ ریلیف ایجنسی کے اسکول سے حاصل کی۔
میٹرک غزہ میں الازھر انسٹیٹیوٹ سے کیا۔ سنہ 1980ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اسی عرصے میں انہو نے اسلامی یونیورسٹی غزہ میں عربی ادب میں داخلہ لیا اور سنہ 1987ء میں سند فراغت حاصل کی۔ عربی ادب میں انہوں نے نمایاں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ حماس کے طلباء گروپ ’اسلامک بلاک‘ سے وابستہ ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسپورٹس کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ھنیہ سنہ 1983ء سے 1984ء تک اسلامی یونیورسٹی غزہ میں طلباء کونسل کے رکن رہے۔ اگلے سال انہیں طلباء کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔
گرفتاری اور ملک بدری
سنہ 1987ء کو فلسطین میں پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی۔ اسی سال اسماعیل ھنیہ کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا۔ گرفتاری کے بعد وہ 18 روز جییل میں رہے۔ سنہ 1988ء میں انہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا اور چھ ماہ تک پابند سلاسل رہے۔ دوران طالب علمی سے اپنے ولولہ انگیز خطابات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
سنہ 1989ء میں ان کی تیسری بار گرفتاری عمل میں لائی گئی اور مسلسل تین سال اسرائیلی جیلوں میں قید رہے۔
اسماعیل ھنیہ کو 17 دسمبر 415ء فلسطینیوں کو اسرائیل نے جنوبی لبنان بے دخل کیا توان میں اسماعیل ھنیہ بھی شامل تھے۔
سنہ 1997ء میں الشیخ احمد یاسین[شہید] کی جیل سے رہائی کےبعد اسماعیل ھنیہ کو ان کا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اس طرح الشیخ احمد یاسین کے ساتھ ان کا تعلق مزید مضبوط ہوا۔
اسماعیل ھنیہ نے غزہ میں اسلامی یونیورسٹی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا۔ سنہ 1997ء میں انہیں سپریم ڈائیلاگ کونسل کا رکن، دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران انہیں اسلامی قومی تنظیموں سے رابطہ کے لیےقائم کردہ سپریم فالواپ کمیٹی میں حماس کا مندوب مقرر کیا۔
اسرائیلی فوج نے اسماعیل ھنیہ کو متعدد بار قاتلانہ حملوں میں شہید کرنے کی بھی کوشش کی۔ 6 ستمبر 2003ء کو انہیں الشیخ احمد یاسین کے اس وقت شہید کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جب وہ حماس رہ نما مروان ابو راس الدرج کالونی میں واقع رہائش گاہ پر موجود تھے۔ اس حملے میں اسماعیل ھنیہ معمولی زخمی ہوئے۔
صہیونی فوج نے کئی بار انہیں شہید کرنے کے لیے ان کے گھر پربھی میزایل حملے کیے۔
سنہ 2006ء میں اسماعیل ھنیہ کو حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح وتبدیلی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ فروری 2006ء میں انہیں فلسطینی حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا مگر یہ حکومت اندرونی اور بیرونی سازشوں کی نذر ہوگئی۔
اسماعیل ھنیہ نے تمام فلسطینی قومی تنظیموں بالخصوص تحریک فتح کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولا اور قومی مفاد کے پیش نظر وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ تاکہ قومی مفاہمت کے تحت تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک قومی حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جاسکے۔
اسی ضمن میں سنہ 2014ء میں ساحلی کیمپ میں اسماعیل ھنیہ کی رہائش گاہ پر فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان مفاہمتی معاہدہ بھی طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت غزہ اور مغربی کنارے میں رامی الحمد اللہ کی قیادت میں قومی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا گیا۔