فلسطینی اسیران و سابق اسیران کے جملہ امور کے ذمہ دار کمشن کے سربراہ عیسیٰ قراق اور فلسطینی اسیران سوسائٹی کے سربراہ قدورہ فارس نے بین الاقوامی تنظیم WHO سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی اسیران کو زبردستی کھانا کھلانے سے روکنے کے لئے مداخلت کرے۔
‘عالمی ادارہ صحت’ سے مدد کی اپیل ایسے موقع پر سامنے آئی ہے کہ جب عبرانی میڈیا کے مطابق قابض اسرائیلی حکومت نے اسیران کی بھوک ہڑتال کو ختم کرنے کے لئے زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش میں بیرون ملک سے ڈاکٹرز منگوائے ہیں۔ یاد رہے کہ اسرآئیلی ڈاکٹروں کی تنظیم نے بھوک ہڑتالی اسیران کو زبردستی کھانا کھلانے کی پالیسی کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا اسیران کی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
اسیران کی تنظیموں کی میڈیا کمیٹی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بین الاقوامی قوانین اسیران کو زبردستی کھانا کھلانے کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسیران کو احتجاج کے طور پر بھوک کرنے کا حق حاصل ہے۔
کمیٹی کے مطابق فلسطینی اسیران کی حفاظت کے بہانے سے ان کو زبردستی کھانا کھلا کر اسرائیلی حکام کو اسیران کو قتل کرنے کا لائسنس مل جائے گا۔ انہوں نے 1980ء میں نفحہ جیل کے اسیران راسم حلاوہ اور علی الجعفری کی مثال دی جنہیں اسرائیلی فوج نے بھوک ہڑتال کے دوران زبردستی کھانا کھلا کر شہید کردیا تھا۔
بیان میں بتایا گیا کہ اسیران کو زبردستی کھانا کھلانے کا عمل ان کے منہ یا ناک سے نالی معدے تک پہنچانے کے ذریعے ہوتا ہے اور اس عمل کے دوران اسیر کو کرسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو بار بار دہرانے سے اسیران کے جسم میں زخم ہوجاتے ہیں۔
اسرائیل نے 1970 اور 1980 کے دوران تین مختلف بھوک ہڑتالوں میں اسیران کو زبردستی کھانا کھلانے کا حربہ استعمال کیا تھا مگر حلاوہ اور الجعفری کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی ہائی کورٹ نے ایک فیصلے کے تحت اس عمل پر پابندی لگا دی تھی۔ اسرائیلی قانون ساز اسمبلی کنیسٹ نے 2015ء میں اس پالیسی پر عاید پابندی ہٹا دی تھی۔
اسرائیلی جیلوں میں قید تقریبا 1500 فلسطینی اسیران نے 17 اپریل سے "آزادی اور وقار” کے لئے بھوک ہڑتال شروع کررکھی ہے۔