جمعه 15/نوامبر/2024

منشیات کا صہیونی اژدھا الخلیل کے نوجوانوں کو نگلنے لگا!

پیر 27-مارچ-2017

فلسطینی قوم قابض صہیونی ریاست کی ہمہ نوع دہشت گردی کا شکارہیں۔ بندوق اور طاقت کے استعمال میں فلسطینیوں کو مغلوب کرنے کی سازشیں ناکام ہونے کے بعد صہیونی دشمن نے  فلسطینی قوم پر ایک نیا وار کیا ہے۔ یہ نیا حملہ توپ کے گولے، میزا اور یا بم سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے کیونکہ اس سنگین واردات کا ہدف فلسطینی قوم کی نئی نسل ہے۔ صہیونی ریاست فلسطینی قوم کو منشیات کا عادی ، نشئی اور بھنگی بنانے کی سازش میں پیش پیش ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں منشیات کے مکروہ پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اب غرب اردن اور بیت المقدس میں بھی یہ زہرپھیلانے کی منظم منصوبہ بندی سامنے آئی ہے۔

غزہ کے بعد اب غرب اردن کا تاریخی شہر الخلیل اسرائیلی دشمن کی اس زہر کا اگلا ہدف ہے۔ الخلیل کو انبیا اور شہداء کا شہر بجا طور پرکہا جاتا ہے۔ اس شہر کی تربیت میں کئی جلیل القدر انبیاء کرام آسودہ خاک ہیں۔ الخلیل شہر فلسطینی تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے اور یہاں پر ہردوسرا خاندان ایک یا زیادہ شہداء کا امین ہے۔

شاید صہیونی دشمن کو الخلیل کے مکینوں کی آزادی کے لیے قربانیاں برداشت نہیں ہوسکیں۔ اس لیے اس شہر کے مکینوں بالخصوص کم عمر بچوں کو منشیات کی لت میں مبتلا کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔

گذشتہ ایک ماہ کے دوران فلسطینی پولیس نے الخلیل شہر میں چھ مقامات پر ‘مارگوانا‘ نامی ایک نشہ آور بوٹی کی کاشت کا پتا چلایا ہے۔ یہ مارگونا چرس کی تیاری کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اس دھندے میں ملوث سماج دشمن عناصر کئی ملین شیکل کی رقم اینٹھتے ہیں۔ حالیہ ایام کے دوران فلسطینی پولیس نے انکشاف کیا کہ الخلیل شہر کے قصبوں دورام یطا، بیت امر، الظاھریہ، عرب الرماضین اور پرانے الخلیل شہر میں مارگوانا کی کاشت کی جا رہی ہیں۔

مکروہ دہندے میں یہودی ملوث

فلسطینی انسداد منشیات پولیس کے ترجمان کیپٹن لوئی ارزیقات بتایا کہ پولیس نے الخلیل شہر میں چھ مقامات پر حشیش اور مارگوانا کی کاشت کا پتا چلایا۔ پولیس اس معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔ جن مقامات سے یہ زہریلی بوٹی ملی ہے وہ یہودی آباد کاروں کے زیرتسلط بتائے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الخلیل کے باشندوں میں منشیات کا زہر پھیلانے میں یہودی اشرار کا گہرا ہاتھ ہے۔ ان سماج دشمن اور فلسطین مخالف عناصر کو صہیونی فوج اور پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔

کیٹپن ارزیقات نے بتایا کہ اسرائیلی حکومت ان یہودی منشیات کے سودا گروں کو گرین زون کے اندر ہرممکن تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جب فلسطینی پولیس کو پتا چلا کہ فلاں فلاں مقامات پر حشیش اور مارگوانا کی کاشت کی جا رہی ہے تو انہوں نے چھاپے مارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی اطلاع جیسے ہی یہودیوں تک پہنچی وہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے ان کے لیے چوکیاں کھول دیں اور وہ وہاں سے شمالی فلسطین کے علاقوں کوبہ حفاظت فرار ہوگئے۔

فلسطینی ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد حسن ابو اسنینہ کا کہنا ہے کہ الخلیل شہر کے فلسطینی نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کا دھندہ صہیونیوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ الخلیل شہر میں جتے لوگ اس مکروہ اور انسان دشمن کاروبار میں ملوث ہیں ان کے کسی نا کسی طرف سے یہودیوں سےرابطے ہیں۔ یہ یہودی ان تک منشیات پہنچاتے۔

انہوں نے بتایا کہ صہیونی فلسطینی قوم میں نشے کا زہر پھیلانے کے لیے ہرطرح کے مکروہ حربے استعمال کرتے ہیں۔ ویران گھروں میں اس  انسان دشمن بوٹی کو چھپایا جاتا ہے اور اس جرم کے مروجین فلسطینی نوجوانوں میں مفت بھی تقسیم کرتے ہیں۔

نفسیاتی معالج ڈاکٹر ابو اسنینہ نے بتایا کہ ان کے پاس جتنے بھی نفسیاتی مریض آتے ہیں وہ منشیات کےعادی ہوتے ہیں۔  منشیات پھیلانے والے شیطان صفت صہیونی مسجد ابراہیمی کے اطراف میں گھومتے پھرتے پائے گئے ہیں۔

فلسطینی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ الخلیل شہر میں منشیات کے فروغ میں اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کا ہاتھ ہے جو فلسطینی قوم کو نشے کا عادی بنا کر انہیں مفلوج کرنا چاہتی ہے تاکہ فلسطینی قوم نشے کی ایسی عادی بنے کہ اسے آزادی کے لیے جدو جہد کرنے کا خیال تک نہ رہے۔

صہیونی فوج اور انٹیلی جنس کا کردار

اسپتال میں زیرعلاج منشیات کےمکروہ دہندے سے متاثرہونے والے ایک فلسطینی نوجوان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب ایک یہودی آباد کار نے اسے نشے کی لت میں مبتلا کیا تو اس وقت میری عمر 16 سال تھی۔ ایک یہودی نوجوان اس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا اور اسے منشیات کی کئی اقسام بہم پہنچاتا۔جب میں اس کا عادی ہوگیا اور اپنے ہوش وحواس سے بھی بیگانہ ہوگیا وہ یہودی غائب ہوگیا۔

چند ایام کے بعد میرے موبائل نمبر پر ایک شخص نے فون کیا اور اپنا تعارف ’کیپٹن سمیر‘ کے نام سے کرانے کے بعد مجھے ایک سیکیورٹی مرکز میں طلب کیا۔ میں جعبرہ نامی اسرائیلی فوج کے سیکیورٹی مرکز میں گیا جہاں مجھے دو گھنٹے تک بیٹھائے رکھا گیا۔ اس کے بعد مجھے  بتایا کہ حارہ المشارقہ کے مقام پر الراس قبرستان میں جاؤ جہاں ایک خالی قبر نما گڑھے میں افیون چھپائی گئی ہے۔

کیپٹن سمیر نامی اہلکار نے کہا کہ تمہیں جب بھی اپنے یا کسی دوسرےکے لیے افیون درکار ہو تو مجھ سے رابطہ کرنا۔

فلسطینی نوجوان نے بتایا کہ میں  کیپٹن سمیر سےرابطے میں رہا۔ میں اسے مسجد ابراہیمی کے قریب سنگ باری کرنے والے فلسطینیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا اور وہ اس کے عوض مجھے چرس اور دیگر منشیات فراہم مہیا کرتا۔

صہیونی فوج کے اس مکروہ دہندے سے صاف ظاہر ہے کہ دشمن فلسطینی قوم کو نہ صرف نشے کا عادی بنا رہا ہے بلکہ نشے کی لت میں مبتلا کرکے فلسطینی نوجوانوں کو حواس ہو مفلوج کر رہا ہے تاکہ آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی فلسطینی نسل کو ملک و قوم کی فکر کے بجائے صرف منشیات کی فکر دامن گیر ہوجائے۔ اس طرح اسرائیل فلسطینی قوم کو مغلوب کرتے ہوئے ارض فلسطین پر مستقل طور پرقابض ہوجائے۔

مختصر لنک:

کاپی