صہیونی ریاست کی جانب سے نہ صرف عام فلسطینیوں کا روز مرہ زندگی کے معمولات متاثر ہو رہے ہیں بلکہ فلسطینی تاریخ، ثقافت اور تہذیب وروایات پربھی گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین کے مختلف شہروں میں صدیوں پرانے دور کی ظروف سازی کی صنعت اہل فلسطین کی پہچان قرار دی جاتی ہے مگر صہیونی پابندیوں کے نتیجے میں ظروف سازی کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صہیونی ریاست طے شدہ حکمت عملی اور پالیسی کے تحت فلسطینی قوم کی تاریخی وتہذیبی روایات کو مٹانےکے لیے کوشاں ہے اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی دست کاریوں کو تباہ کر رہی ہے۔
دم توڑنے والی تاریخی روایات اور ثقافتی اقدار میں غرب اردن کے شمالی شہر نابلس شہر کی ظروف سازی کی صنعت بھی شامل ہے جو برسوں سے صہیونی ریاست کی قدغنوں کے نتیجے میں تباہی سے دوچار ہے۔ مقامی فلسطینی برتن سازاپنے فن میں آج بھی ید طولیٰ رکھتےہیں۔
نابلس شہر کے جبع قصبےسے تعلق رکھنے والےجمال الفاخوری کا کہنا ہے مٹی کے برتن تیار کرنا ان کا آبائی پیشہ ہے مگر صہیونی ریاست کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں کے نتیجے میں انہیں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔
الفاخوری کو ظروف سازی کا فن اپنے باپ دادا سے ملا۔ مشکلات کے باوجود وہ آج بھی اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مٹی کی برتن سازی ایک پیچیدہ مگر دلچسپ فن ہے۔ ان کے آباؤ اجداد نے سنہ 1936ء میں مٹی کی برتن سازی کا آغاز کیا۔ مگر ان کی نسل میں یہ پیشہ تین سو سال سے جاری ہے۔
ان کے گھریلو کارخانے میں تیار ہونے والے مٹے کے برتنوں میں کھانا پکانے کے برتن، گھروں میں استعمال ہونے والی آرائشی اشیاء، گل دان اور دلہنوں کے آرائی جگ وغیرہ شامل ہیں۔
فلسطینی محقق اورمورخ خالد تمیم کا کہنا ہے کہ برطن سازی فلسطینی ثقافت وتہذیب کا اہم تاریخی جزو ہے مگر اسے اسرائیل کی طرف سے اب مشکلات کا سامنا ہے۔