فلسطین کی سپریم اسلامی کونسل نے صہیونی ریاست سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی مساجد میں اذان پرپابندی کا متنازع قانون واپس لے کیونکہ اس قانون کی منظوری کے سنگین مضمرات سامنے آسکتے ہیں جس کا ذمہ دار اسرائیل ہوگا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق بیت المقدس میں قائم سپریم اسلامی کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مساجد میں اذان کی آواز کم کرنے کے لیے لاؤڈ اسپیکروں کے استعمال پر پابندی ناجائز اور ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کو ہرصورت میں اس قانون کو منسوخ کرنا ہوگا ورنہ اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست نے فلسطینی مساجد میں اذان پرپابندی کی آڑ میں لاؤڈ اسپیکروں کے استعمال پر پابندی کی حماقت کی تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اذان پرپابندی خود اسرائیل کے اپنے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ صہیونی ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت کرے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کی جانب سے اذان پرپابندی کا قانون عارضی طور پر معطل کرنا کافی نہیں۔ اسے منسوخ کرنا ہوگا۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ اذان اور مذہبی شعائر پرپابندی اسلام سمیت کسی بھی آسمانی مذہب میں جائز نہیں۔ صہیونی کس قانون کے تحت فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔
فلسطینی سپریم اسلامک کونسل کا کہنا ہے کہ اگراذان آرام میں خلل پیدا کرتی ہے تو یہ بتایا جائے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر بمباری اور ان کا قتل عام کیا انہیں سکون پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایک طرف فلسطینی مساجد سے بلند ہونے والی اذان بھی آرام و سکون میں خلل پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف اسرائیلی فوج کے ٹینک اور بلڈوزر آئے روز فلسطینیوں بستیوں میں گھس جاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے گھروں پر دھاوے بولتے ہیں۔ نہتے بچوں اورخواتین کو زود کوب کرتے ہیں۔ کیا یہ کھلم کھلا ریاستی دہشت گردی اور صہیونی ریاست کا دوغلا پن نہیں۔