جمعه 15/نوامبر/2024

نابلس کے معذور روزہ دار صحت مندوں سے زیادہ متحرک!

بدھ 15-جون-2016

ماہ صیام آتے ہی ہرطرف بھکاریوں کی بھرمار ہوتی ہے اور معذوری کی آڑ میں ہرشخص کمانے کے لیے اپنے گھرسے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ مگر فلسطین کے شہر نابلس میں پانچ معذور نوجوانوں نے اپنی معذوری کے علی الرغم خود کو تندرست اور توانا لوگوں سے زیادہ متحرک ثابت کیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس سے تعلق رکھنے والے یہ پانچ فلسطینی معذور شہری وہاں کی جنرل معذور یونین سینٹر کا حصہ ہیں۔ معذوری نے انہیں شہریوں میں خوشیاں بانٹنے اور خود اجرو ثواب اور ڈھیروں نیکیاں کمانے سے محروم نہیں رکھا۔ افطاری سے کچھ دیر قبل وہ اپنے ساتھ افطاری کا سامان لےکرگھروں سے نکلتے ہیں اور سڑکوں پر راہ گیروں کو روزہ افطار کراکے ان کے روزے کے ثواب اور افطاری کی خوشی میں شامل ہوتےہیں۔

پانچوں معذور شہریوں نے اپنی معذوری کے باوصف یہ ثابت کیا ہے کہ وہ معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری ہیں اور کئی ہڈ حرام قسم کے نکمے تندرست لوگوں سے زیادہ صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ سڑکوں پر جب روزہ داروں کو روزہ افطار کرانے نکلتے ہیں تو ہرایک انہیں جھک کر سلام پیش کرتا اور ان کا بے حد احترام کرتا ہے۔ان کے اس رضاکارانہ اور مخیر نیک عمل پر ہرشخص کے دل سے ان کے دعا نکلتی ہے۔

معاشرے کی ایک نئی شکل
جنرل معذور فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل معاویہ منی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ان معذور افراد کی جانب سے روزہ داروں کا روزہ افطار کرانے میں ان کی مدد کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ معذور شہریوں کی جانب سے گھروں سے نکل کر روزہ دار راہ گیروں تک پہنچنے کا تخیل ان کا اپنا ہے۔ اس پر انہیں کسی نے مجبور نہیں کیا۔ مگر انہوں نے فلسطینی معاشرے کی ایک نئی صورت دنیا کے سامنے پیش کی ہے جہاں معذور افراد بھی خدمت خلق کے جذبے سے بھرپور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معذور شہریوں نے معاشرے کے سامنے ایک نئی اور مثبت تصویر پیش کی ہے۔ انہوں نے فلسطینی قوم کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ معذور شہری بھی معاشرے کے مفید اور کارآمد افراد ہو سکتے ہیں۔ مشکلات اور جسمانی عوارض کسی کو عظیم مشن کی انجام دہی سے روک نہیں سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں معاویہ منیٰ کا کہنا تھا کہ معذور شہریوں کی جانب سے روزہ داروں کا روزہ افطار کرانے کا عمل اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جس کی فلسطین کیا کسی دوسرے معاشرے میں بھی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ معذور شہری روزہ داروں کا روزہ افطار کراکے نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ وہ اللہ کی رضا اور ڈھیروں نیکیاں کماتے ہیں۔ انہوں نے معذوری کے باوجود روزہ افطار کرانے کا مشکل راستہ اختیار کر کے نکمے لوگوں کو بھی پیغام حیات دیا ہے۔ پانچوں معذور شہری ایک ہی وقت میں گھروں سے نکلتے ہیں اور مختلف سڑکوں اور چوکوں میں پہنچ کر پانی، کھجور اور ماکولات اور مشروبات کے دیگر لوازمات کے ساتھ روزہ داروں کا روزہ افطار کراتے ہیں۔

معاشرے کے لیے پیغام
روزہ افطار کرانے میں سرگرم معذور شہری فواد ابو لیل نے اپنی وہیل چیئر پربیٹھے ہوئے ہمارے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سرگرمی کا مقصد معاشرے کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم معذوری کو اپنے کاموں کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ ہم بھی صحت مند لوگوں کی طرح سرگرم ہیں اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ گھر سے نکلنے کے بعد کتنی دور تک جاتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ گھرسے سڑکوں تک ہم کوئی تین کلو میٹر چلتے ہیں۔ جہاں ہم گھرپہنچنے سے رہ جانے والے روزہ داروں کو کھجوریں،پانی اور دیگر اشیاء روزہ افطار کرانے کو دیتے ہیں۔ معذور شہری کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ڈرائیور حضرات روزہ افطار کرتے ہیں۔ وہ ہماری دعوت افطار بہ خوشی قبول کرتےہیں۔ پانی اور کھجوریں لے کران سے روزہ افطار کرتے اور ہمیں دعائیں دیتے ہیں۔

پانچوں شہری نماز مغرب سے چند منٹ قبل نابلس کے نیشنل اسپتال کے باہر جمع ہوتے ہیں، جہاں وہ اپنے ساتھ حسب توفیق پانی اور کھجوریں لیتے اور اپنی وہیل چیئر کو خود گھسیٹ کر سڑکوں پرلے جاتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی