اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سیاسی شعبے کے نائب صدر اور سابق وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ ہم غزہ کی پٹی میں جنگ مسلط کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ اگر جنگ مسلط کی گئی تو دشمن کے خلاف پوری قوت سے جنگ لڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کی سرحد پر اسرائیل کو نئی جارحیت اور سرحد کی صورت حال تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس غزہ میں جنگ مسلط کرنے کے حامی نہیں ہیں اور نہ ہی دشمن کو غزہ کی سرحد پر نئی جارحیت مسلط کرنے کی اجازت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی صہیونی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
انہوں نے الزام عاید کیا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اور غزہ پر حملوں کے لیے حیلے بہانے تراش رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی دشمن کی فوجیں غزہ کی پٹی میں 100 اور 150 میٹر اندر داخل ہوکر نام نہاد سرنگوں کی تلاش کے لیے کھدائی کرتی اور فلسطینی کالونیوں پر پربمباری کرتی ہے۔ یہ تمام مکروہ حربے جنگ مسلط کرنے کی راہ ہموار کرنے کی سازش ہیں۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے دشمن سمیت عالمی برادری کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی جنگ کے لیے تیار ہیں مگر جنگ مسلط کرنے میں پہل نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کی سرحد کی صورت حال تبدیل کرتے ہوئے کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے مگر دشمن کو ایسا کرنے اور غزہ کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے سنہ2014ء کو قاہرہ کی ثالثی کےتحت طے پائی جنگ بندی پر عمل درآمد ہی ان کی اولین ترجیح ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے بعد حماس نے مصر، قطر، اقوام متحدہ کے امن مندوب نیکولائے میلاڈینوف اور ترکی سمیت دوسرے برادر ملکوں سے رابطے کیے ہیں۔ ان ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی روز مرہ کی بنیاد پر جاری دہشت گردی، فضائی اور زمینی حملے اور دراندازی کھلی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔