حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت ’یونیسکو‘ نے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام اور پہلے قبلہ مسجد اقصیٰ اور دیوار براق جسے یہودی دیوار گریہ کے طور پر جانتے ہیں کو مسلمانوں کے مذہبی مقامات قرار دیا تو صہیونی اس فیصلے پر سخت سیخ پا ہوئے ہیں۔
یونیسکو کے فیصلے کا مطلب صرف مسجد اقصیٰ ہی نہیں بلکہ اس سے ملحقہ تمام مقامات جن میں باب الرحمہ، باب المغاربہ، اس کا راستہ، مسجد کی مغربی دیوار، صحن براق اور دیگر تمام مقامات مسجد اقصیٰ کے جزو لازم ہیں جنہیں کسی صورت میں مسجد اقصیٰ سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل نے پانچ جون 1967ء کو بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پرقبضہ کرتےہوئے مسلمانوں کے مقدس مقام کی عرب اور اسلامی شناخت سلب کرنے کی سازش کی تھی مگر حال ہی میں یونیسکو نے ایک بار پھر قبلہ اول کو اس کی عرب شناخت لوٹانے کا اعلان کیا ہے۔
گوکہ یونیسکو کے فیصلے پر اسرائیل سیخ پا ہے اور یہودی لابی نے فیصلے کو قبول نہیں کیا ہے مگر اس فیصلے نے قبلہ اول پریہودیوں کے ملکیت کے دعوے کو باطل قرار دینے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے مسجد اقصیٰ اور اس کے ملحقہ مقامات پر ایک انفو فلم میں روشنی ڈالی ہے۔
یونیسکو کا جرات مندانہ فیصلہ
جس میں یہودیوں کے قبلہ اول پر ملکیت کے حق کو باطل قرار دیا گیا ساتھ ہی یہ واضح کردیا گیا کہ قبلہ اول صرف اور صرف مسلمانوں کا تاریخی مذہبی مقام ہے اس میں باب الرحمہ، باب المغاربہ[مراکشی دروازہ] مغربی دیوار اور صحن براق بھی شامل ہیں۔ یہ سب کے سب قبلہ اول کے جزو لا ینفک ہیں۔ پانچ جون 1967ء کے بعد صہیونی ریاست نے قبلہ اول کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں وہ سب باطل ہیں۔
صہیونی ریاست کی طرف سے احتجاج
یونیسکو کے فیصلے کے رد عمل میں صہیونی ریاست نے یونیسکو کے ساتھ ہرطرح کے تعاون کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیتن یاھو کا کہنا ہے کہ یونیسکو قبلہ اول کو مسلمانوں کا مقدس مقام قرار دے کر اپنا آئینی اسٹیٹس کھو چکی ہے۔اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’یونیسکو‘ القدس سے یہودیوں کا تعلق ختم کرنے کی سازش کررہی ہے۔ اسرائیل کی سیاسی شخصیات نے یونیسکو کے فیصلے کو 70 سال کا خطرناک ترین فیصلہ قرار دیا اقوام متحدہ کی جانب سے یونیسکو کے فیصلے کی پیروی کے بجائے موجودہ اسٹیٹس کو برقرار رکھے پر زور دیا ہے۔ عرب لیگ نے اپنے رد عمل میں یونیسکو کے فیصلے کو فلسطینیوں کے القدس پرحق کو ثابت کرنے کی طرف اہم پیش رفت قرار دیا فلسطینی نمائندہ تنظیموں نے فیصلے کو سیاسی فتح اور قبلہ اول پر فلسطینیوں کے حق کی زندہ مثال قراردیا۔
یونیسکو کا قبلہ اول کے بارے میں یہ پہلا فیصلہ نہیں
سنہ 1928ء میں برطانوی حکومت نے ’وائیٹ بک‘ جاری کی جس میں لکھا گیا کہ مسجد اقصیٰ ، اس کی مغربی دیوار اور آس پاس کے تمام مقامات صرف مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ سنہ 1967ء کے بعد اسرائیل نے مسلمانوں کو دیوار براق کے قریب جانے سے روک دیا تھا صحن براق کو توسیع دینے کی کوششوں کے دوران فلسطینی اوقاف کی اراضی اور املاک پر بھی قبضہ کیا گیا۔ اور اب اسرائیل قبلہ اول کو زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اس سب کے باوجود ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اور اس کے ملحقہ مقامات اپنی عربی شناخت کی طرف پلٹ رہے ہیں۔