اگست سنہ 2015ء کو غزہ کی پٹی سے مصر جاتے ہوئے چار فلسطینی نوجوانوں یاسر زنون، عبدالدائم ابو لبدہ عبداللہ ابو جبین اور حسن الزبدہ کو مصری فوج کی وردی میں ملبوس مسلح اہلکاروں نے جزیرہ نما سینا میں ایک بس سے اتار کر انہیں یرغمال بنایا اس کے بعد انہیں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ یرغمالی فلسطینیوں کے اہل خانہ اور فلسطینی تنظیمیوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا تو مصری حکام نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے اغواء کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ انہیں سرکاری طورپر اغواء نہیں کیا گیا ہے۔
ایک سال گذرجانے کے بعد حال ہی میں قطر کے الجزیرہ ٹی وی نے مصر کی ایک جیل میں قید ان چار میں سے دو فلسطینیوں یاسر زنون اور عبدالدائم ابو لبدہ کی نیم عریاں حالت میں تصاویر جاری کیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ان فلسطینیوں کی بلا جواز گرفتاری کے حوالے سے پہلے ہی احتجاج کرتے ہوئے اس کا الزام مصری فوج پرعاید کرتی چلی آئی ہیں مگر حالیہ تصویر نے مصری فوج کے اس جھوٹ کو بے نقاب کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کو مصری سیکیورٹی اداروں نے اغواء نہیں کیا ہے۔
جبری گم شدگی کے عالم دن کی مناسبت سے مرکزاطلاعات فلسطین نے ان چاروں مغوی فلسطینیوں اور ان کے اہل خانہ کی المناک داستان پر ایک انفو فلم میں روشنی ڈالی ہے۔
دنیا بھر میں 30 اگست کو جبری گم شدگی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
عالمی فوج داری عدالت کے قوانین اور بنیادی اصولوں کے تحت کسی شخص کو جبراً اغواء کر کے غائب کر دینا سنگین انسانی جرم ہے۔
مگر عالمی قوانین کی موجودگی انسانوں کی اپنے ہی بھائی بندوں کے ہاتھوں گم شدگی کا سلسلہ بند نہیں کرا سکی۔
انیس اگست 2016ء کو غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے چار فلسطینی نوجوان جو تعلیم کی غرض سے بیرون ملک سفر پر جا رہے تھے کو جزیرہ سینا کے مقام پر مسلح اہلکاروں نے بس سے اتار کر ظالمانہ طریقے سے اغواء کیا۔
اغواء کی یہ وحشیانہ واردات غزہ کی پٹی کی رفح گذرگاہ عبور کرنے کے بعد مصر کے جزیرہ نما سینا میں 300 میٹر اندر ہوئی۔
مغویوں کے اہل خانہ اپنے پیاروں کے دکھ اور غم میں نڈھال ہیں۔
مصری حکام نے ابتداء میں صاف انکار کیا تھا کہ انہیں فلسطینیوں کے اغواء کا علم نہیں ہے۔
تاہم ایک سال گذر جانے کے بعد مصر کی لازوغلی نامی جیل کے اندر کی کچھ تصاویر سامنے آئیں۔ یہ جیل مصری انٹیلی جنس کے ماتحت کام کرتی ہے۔ اس جیل میں دو مغوی فلسطینیوں کو یاسر زنون اور عبدلدائم ابو لبدہ کو نیم عریاں اور نہایت کسمپرسی کے عالم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جیل کی اندر کی تصاویر نے صرف مغویوں کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ ہر درد دل رکھنے والے کو دکھی کر دیا ہے۔
مغویوں کے معصوم بچے پوچھتے ہیں کہ ان کے پیاروں کو کس جرم کی پاداش میں قید کیا گیا ہے؟ انہیں رہائی کب ملے گی؟۔