لبنان میں واقع فلسطینی پناہ گزینوں کے ’’الزعتر‘‘ کیمپ میں قتل عام کے 40 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ آج سے چالیس سال قبل جولائی اور اگست کے دوران لبنانی انتہا پسند صہیونی حمایت یافتہ جتھوں نے الزعتر کیمپ میں 52 دن تک پناہ گزینوں پر قیامت برپا کئے رکھی، جس کے نتیجے میں کم سے کم 4 ہزار فلسطینی شہید ہو گئے تھے۔
پناہ گزین کیمپ کا محاصرہ کرنے اور نہتے پناہ گزینوں کا قتل عام کرنے والوں میں بییر الجمیل کی حزب الکتائب، قوم پرستوں کی کمیل شمعون کی قیادت میں قائم النمور ملیشیا، طونی فرنجیہ کی جیش تحریر اور حراس الارز ملیشیا کے جنگجو شامل تھے۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے الزعتری کیمپ میں قیامت برپا کرنے کی یاد میں ایک انفوفلم میں روشنی ڈالی ہے۔ جس کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
الزعتر کیمپ بیروت کے شمال مشرق میں واقع ہے
سنہ 1976ء میں اس کیمپ میں 20 ہزار فلسطینی اور 15 ہزار لبنانی شہری سکونت پذیر تھے۔
جون سنہ 1976ء کے آخر میں الزعتری کیمپ کا محاصرہ شروع ہوا۔
محاصرہ کرنے والوں میں
بییر الجمیل کی حزب الکتائب، قوم پرستوں کی کمیل شمعون کی قیادت میں قائم النمور ملیشیا، طونی فرنجیہ کی جیش تحریر اور حراس الارز ملیشیا کے جنگجو شامل تھے۔
طویل عرصے تک اہالیان کیمپ کا کھانا، پانی اور بجلی بند کر دیے گئے۔
12 اگست سنہ 1976ء کو کیمپ میں ہولناک قتل عام شروع ہوا
قتل عام 52 روزتک جاری رہا اور اس دوران بین الاقوامی امدادی اداروں کو کیمپ میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
کیمپ پر 55 ہزار بم برسائے گئے۔
محاصرے کے باعث قحط اور خشک سالی نے ڈٰیرے ڈالے
بچے ، بوڑھے اور مریض بھوک سے مرنے لگے اور ہرطرف خون ہی خون بہتا رہا۔
بھوک سے نڈھال محصورین نے اپنے شہید اور فوت ہونے والے افراد کا گوشت کھانے پر مجبور تھے۔
قتل عام کے اختتام پر پتا چلا کہ 4280 افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔
’’یورو مڈل ایسٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق کیمپ میں قتل ہونے والے چند ایک افراد کی لاشیں ملیں۔
دو ماہ تک جاری رہنے والے محاصرے کے بعد جب کیمپ کی آبادی کو قتل اور بے گھر کر دیا گیا تو محاصرہ کرنے والے شرپسندوں نے بلڈوزروں کی مدد سے کیمپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور کیمپ کو زمین کے برابر کر دیا گیا۔
ستم یہ ہے کہ زعتر کیمپ میں تباہی اور بربادی آج بھی منہ کھولے کھڑی ہے اور کیمپ میں تعمیر نو کی اجازت نہیں دی گئی۔
قتل عام میں زندہ بچ جانے والے صحافی یاسر علی کا کہنا ہے کہ قتل عام ہمارے لیے ایک نئی ’’نکبہ‘‘ ثابت ہوئی۔
چالیس سال گذر کر بھی اس کیمپ کے متاثرین اپنا غم اور دکھ بھلا نہیں پائے ہیں۔