چهارشنبه 30/آوریل/2025

یہودی اسرائیل کیسے لائے گئے؟

منگل 24-ستمبر-2019

ایندھن دکھانے والی سُوئی نیچے سے نیچے جاتی گئی، اسوقت وہ مصر کے اوپر تھے، ایندھن نہ ڈلوایا جاتا تو جہاز گر سکتا تھا۔

پائلٹ ایک خفیہ مشن پر تھا۔ اس کے جہاز میں ڈیڑھ سویہودی سوار تھے جو یمن سے اٹھائے گئے اور اسرائیل لے جائے جا رہے تھے۔ مسلمانوںاور یہودیوں کے درمیان سخت کشیدگی تھی، فسادات ہو رہے تھے، جن میں کئی ہلاکتیں ہوچکی تھیں۔ اس لیے جہاز اترنے کے بعد لوگوں کو پتہ چلتا کہ وہ یہودی ہیں تو کچھ بھیہو سکتا تھا لیکن پھر بھی پائلٹ نے اترنے کا فیصلہ کیا۔

انتظامیہ سے رابطہ ہو چکا تھا کہ صرف ایندھن لیناہے۔ جیسے ہی جہاز اترا ایئرپورٹ حکام جہاز کی چیکنگ کے لیے آئے تو پائلٹ نے کہامسافروں کو ہسپتال پہنچاؤ۔

کیوں؟ کے جواب میں کہا کہ یہ سارے چیچک کے مریض ہیںاور علاج کے لیے لے جائے جا رہے ہیں۔ ان دنوں یہ مرض ایک عفریت کی مانند پھیلا ہواتھا، لوگ اس سے خوفزدہ تھے، اس لیے انتظامیہ نے مسافروں سے دور رہنے میں ہیعافیت جانی اور جلدی سے ایندھن دے کر روانہ کر دیا کہ کہیں جراثیم نہ پھیل جائیں۔

یہ تھا ’آپریشن میجک کارپٹ‘ کے بے شمار سنسنی خیزواقعات میں سے ایک واقعہ اور پائلٹ تھے امریکہ کے رابرٹ ایف ایگوائر، جو آپریشنکے چیف تھے۔

یہودیوں کے تحفظ کا منصوبہ

1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت قریباً دسلاکھ یہودی مشرق وسطیٰ، افریقی اور عرب ممالک میں مختلف مقامات پر موجود تھے، جنکو کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس سے قبل 1947 میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کویہودی اور عرب ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو دیگر مقامات پر موجود یہودیغیر محفوظ ہو گئے۔

چند ماہ بعد صورت حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب یمن میںدو مسلمان لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور الزام یہودیوں پر لگا۔ پھر فسادات شروع ہوگئے اور یہودیوں پر حملے ہونے لگے۔ جس پر امریکی اور اسرائیلی حکومتوں نے یہودیوںکو اسرائیل منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے مالی تعاون امریکن جیوئش جوائنٹڈسٹری بیوشن کمیٹی نے فراہم کیا۔

منصوبے کو حتمی شکل دینے کے بعد امریکی و اسرائیلیحکام نے یمن کے شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس شرط پر یہودی لے جانے کی اجازت دےدی کہ ان کو لے جانے والے جہاز یمن کی سرزمین پر نہیں اتریں گے بلکہ شہر عدن سےملحق ’گیولا‘ نامی ٹرانزٹ کیمپ سے یہودیوں کو اٹھائیں گے جو اس وقت انگریز حکومتکے پاس تھا اور یمن سے قریباً 300 کلو میٹر دور تھا۔

اس کے بعد اس خفیہ آپریش کی تیاری شروع ہوئی جس کانام ’آپریشن میجک کارپٹ‘ تجویز کیا گیا اور اس کا ہدف یمن سے تمام یہودیوں کونکال کر بحفاظت اسرائیل پہنچانا تھا۔

آپریشن میجک کارپٹ

چونکہ یہ ایک خفیہ آپریشن تھا اس لیے اعلان نہیںکیا جا سکتا تھا کہ تمام یہودی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں، جہاں سے ان کو لے جایاجائے گا بلکہ یمنی حکومت کی رضامندی سے ہی کچھ لوگوں کی ڈیوٹی لگائی گئی جن کا کامیہودیوں کو ڈھونڈنا اور ان کو اسرائیل جانے کے لیے تیار کرنا تھا۔

ساتھ ہی انہیں یہ تاکید بھی کرنا تھی کہ کسی کو نہ بتائیں۔ یوں کئیماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اندازے کے مطابق قریباً تمام ہی یہودیوں کو پیغام ملگیا تھا اور وہ تیار ہو چکے تھے۔

اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے ٹولیوں کی شکل میںلوگ ٹرانزٹ کیمپ کی طرف چلنا شروع ہوئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی،چونکہ سواریوں کا انتظام نہیں تھا اور دوسرا چھپ کر بھی جانا تھا اس لیے وہاںپہنچنے والوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

 مصائب اور کئی روز کے سفر کے بعد قافلےٹرانزٹ کیمپ کے پاس پہنچے تو  امریکہ اور اسرائیلی حکومت نے پہلے سے رہائش،صحت کی سہولتوں، خوراک وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا۔ رضاکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئیتھی، چونکہ ان میں اکثریت انتہائی غریبوں کی تھی اس لیے بیت الخلا اور دوسریسہولتیں ان کے لیے حیران کن تھیں۔



1949 کے جون کے آغاز میں جب پہلا جہاز پہنچاتو غریب لوگ اسے دیکھ کر ڈر گئے اور سوار ہونے سے انکار کر دیا جنہیں رضاکاروں نےکافی سمجھا بجھا کر سوار کروایا اور یوں پہلا جہاز قریباً 100 یہودیوں کو لے کراڑا، تل ابیب پہنچا، لوگ اتارے اور پھر واپس عدن پہنچا، یہ سلسلہ ستمبر 1950 تکجاری رہا اور یہودیوں کو یمن سے اسرائیل پہنچایا جاتا رہا۔

یہ انتہائی خفیہ اور خطرناک آپریشن تھا لیکن اسے اسمہارت سے پورا کیا گیا کہ اس میں ایک انسانی جان تک ضائع نہیں ہوئی۔اس کے لیےالاسکا ایئرلائنز کے 28 طیارے مسلسل اڑتے اور اترتے رہے اور 50 ہزار افراد کو لےجایا گیا۔جہازوں کو ایک مہینے میں قریباً 300 گھنٹے تک اڑایا گیا حالانکہ امریکہمیں اس کی حد 90 گھنٹے تک مقرر ہے۔

کم سے کم وقت میں سب کو نکالنا اولین ترجیح تھی۔

ڈگلس ڈی سی فور، کرٹس سی 46 نامی جہازوں کی استطاعت اتنی نہیں تھی کہاس قدر بڑا آپریشن کر سکیں اس لیے جہازوں کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ان میںاضافی ایندھن کی ٹینکیاں لگائی گئیں جبکہ سیٹوں کو تنگ کر کے جوڑا گیا اور اضافیبینچ بھی لگائے گئے۔ جس کے بعد زیادہ سے زیادہ 50 مسافر لے جانے والا طیارہ ایک120 سے زائد مسافر لے جا سکتا تھا اور اضافی وزن کے باوجود بھی ایندھن زائد گھنٹوںتک کے لیے کام کرتا۔آپریشن میجک کارپٹ کو ’آپریشن آن ونگز آف ایگل‘ بھی کہاجاتا ہے۔ آپریشن مکمل ہونے کے کئی ماہ بعد دنیا کو اس کا علم ہوا۔

اسرائیل پہنچنے کے بعد کیاہوا؟

منزل پر پہنچ جانے کے بعد بھی مسائل نے پیچھا نہیںچھوڑا  کیونکہ اسرائیل کو آزاد ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا اور اسے بے تحاشامسائل کا سامنا تھا جن میں سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کا تھا۔

ایسے میں بہت بڑی تعداد کے ملک میں پہنچنے سے صورت حال مزید گھمبیرہو گئی۔ سب سے پہلے آنے والوں کو بڑے شہروں کے مضافات میں قائم کیے جانے ٹرانزٹکیمپوں میں لے جایا گیا جہاں وہ چند ماہ تک قیام پذیر رہے۔

ان کی خوراک کا انتظام حکومت کی جانب سے کیا جا رہاتھا۔ صورت حال میں کچھ بہتری آنے پر ان کو زرعی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا جہاںکچھ نے کھیتی باڑی شروع کی۔ معاشی صورت حال بہتر ہوتی گئی اور ان میں سے کئی دوسرےاور بڑے شہروں کی طرف منتقل ہو گئے۔

جہاں دیگر نسلوں کے یہودیوں نے انہیں خوش آمدید کہااور زندگی کے ہر شعبے میں ان کو مواقع دیے گئے۔ پڑھائی لکھائی اور آگے بڑھنے کےبھرپور مواقع دیے گئے اور ووٹ کا حق بھی، اس طرح وہ جلد ہی گھل مل گئے اور شادیبیاہ کے رشتوں میں بھی بندھ گئے۔


دیگر آپریشنز

آپریشن میجک کارپٹ کی کامیابی کے بعد اسرائیلیحکومت نے دنیا کے دیگر حصوں سے بھی یہودیوں کو اسرائیل لانے کا منصوبہ بنایا اوربعد ازاں کئی آپریشنز ہوئے۔عراق سے ایک لاکھ بیس ہزار یہودیوں کو ایئرلفٹ کیا گیایعنی جہازوں کے ذریعے اسرائیل لے جایا گیا۔ اسی طرح 1984 میں سوڈان کے مہاجر کیمپمیں موجود 8000 ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل لے جایا گیا۔ 1991 میں اسرائیلیجہازوں نے صرف 36 گھنٹوں کے اندر 15 ہزار ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا۔اس طرح چند سال کے عرصے میں قریباً 10 لاکھ یہودی اسرائیل پہنچے۔چند سال قبل تکایسی خبریں آتی رہی ہیں جن میں خفیہ طور پر یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا جاتارہا ہے۔

اسرائیل کا ایک ادارہ رضاکارانہ طور پر اس حوالےسے اب بھی کام کر رہا ہے۔



لینک کوتاه:

کپی شد