وہ کہتے ہیں کہ اس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب ‘تورات’ میں بار بار کیا ہے مثلاً وہ وضاحت کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے لوگ دیکھیں انجیلی کتاب ‘پیدائش’ (Genesis) باب 15 آیات 18-16 جہاں دو ٹوک طریقے سے بیان کیا گیا ہے کہ ”میں نے یہ ملک تیری نسل کو دریائے مصر سے لے کر اس بڑے دریا (فرأت) تک ‘قینیوں، قنزیوں قدمونیوں، حتیوں، فرزیوں، فرائیمیوں، اموریوں کنعانیوں، جرجاسیوں اور جبوسیوں (تمام قوموں) سمیت دے دیا ہے۔” امریکی مصنف جان ایف Walvoord ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”اس خدائی وعدے سے آج کے دور کا اسرائیل، دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور عراق سعودی عرب اور شام کے ممالک کے بڑے علاقے مراد ہیں، (آرمیگاڈون، آئل اینڈ دی مڈل ایسٹ کرائسس، ص 2829) دوسرے الفاظ میں یہ خدائی وعدہ غیر مشروط ہے اور اس کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنی اسرائیل کی وفاداری اور بیزاریٔ شرک کے ساتھ نہیں ہے۔
یہودی کہتے ہیں کہ ان کے بنی یرمیاہ نے خدائی زبان میںپہلے ہی پیشین گوئی کر دی کہ ”وہ یعقوب (بنی اسرائیل) کی مصیبت کا وقت ہو گا، تاہم اس کے باوجود وہ اس مصیبت سے رہائی پائیں گے۔ اس روز یوں ہو گا، رب الافواج فرماتا ہے کہ میں (غلامی کا) جوا تیری گردن پر سے توڑ دوں گا اور تیرے بندھنوں (زنجیروں) کو کھول دوں گا۔ یہاں تک کہ بیگانے پھر تجھ سے خدمت نہیں کرا سکیں گے۔ بلکہ وہ خداوند اپنے خدا کی اور اپنے بادشاہ داؤد کی خدمت کیا کریں گے۔ اس لیے اے میرے یعقوب (یہودی قوم) ہراساں نہ ہو۔ خداوند فرماتا ہے ”اے اسرائیل گھبرانہ جا، کیونکہ دیکھ میں تجھے اور تیری اولاد کو غلامی کی سر زمین سے چھڑاؤں گا اور یعقوب (بنی اسرائیل) واپس آئیں گے اور راحت و آرام سے رہیں گے۔ اور کوئی انہیں نہ ڈرا سکے گا کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔” (یرمیاہ 30، آیات 8-11)
صیہونیوں نے جب اسرائیل کے لیے عالمی ہمہ گیر مہم شروع کی تو برطانیہ اس کے دباؤ میں بہت زیادہ آ گیا تھا۔ اس وقت تک زمین پر سب سے بڑی قوت برطانیہ ہی کی سمجھی جاتی تھی۔ بہت کچھ کو اس سیاسی دباؤ کی وجہ سے اور کچھ جنگِ عظیم اول (1917) میں یہودی قوم کی ہمدردی کے حصول کی خاطر برطانوی وزیرخارجہ لارڈ بالغورنے قیام اسرائیل کے لیے 1917ء کو اعلان بالغور کا اجراء کیا تھا۔ تاہم عرب دنیا کی جانب سے بڑھتے ہوئے ہنگاموں اور سیاسی دباؤ کے باعث قیام اسرائیل کی دستاویز کو طویل عرصے تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ برطانیہ اتنی بڑی عرب برادری سے بھی اپنے تعلقات نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اعلان بالغور کے باوجود برطانیہ نے جو اس وقت ”انجمن اقوام” کی جانب سے فلسطین کا نگران تھا، فلسطین میں یہودیوں کے مزید داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر چار لاکھ یہوی کسی نہ کسی طور پر 1939ء تک فلسطین میں داخل ہو چکے تھے۔ اتفاق سے یہی وہ سال تھا جبکہ دوسری عظیم جنگ کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔
جنگ کے اختتام پر اقوام متحدہ نے طے کیا کہ امریکہ اور روس کی آشیرباد سے فلسطین کو دو حصوں، یہودی فلسطین اور عربی فلسطین میں تقسیم کر دیا جائے۔ اپنی ریاست کے تیز ترقیام اور فلسطین سے برطانویوں کو نکال باہر کرنے کی خاطر فلسطین میں موجود تقریباً چھ لاکھ یہودیوں نے یروشلم کے کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو دھماکوں سے اڑا دیا جہاں نگراں برطانوی افواج قیام پذیر تھیں۔ اس کے بعد 14 مئی 1978ء کو صیہونیوں نے از خود قیام اسرائیل کا اعلان کر دیا اس غیر قانونی اقدام کی کسی بھی مہذب گوری قوم نے مذمت نہیں کی تھی۔
کتاب ”یرمیاہ” باب 23 میں یوں پیشین گوئی کرتی ہے کہ ”پرمیں انہیں ان تمام ممالک سے جہاں جہاں میں نے انہیں ہانک دیا تھا، جمع کر لوں گا اور انہیں ان کے گلے خانوں میں لاؤں گا اور وہ چلیں گے اور بڑھیں گے… خداوند فرماتا ہے دیکھ وہاں دن آئے ہیں کہ میں داؤد کے لیے ایک سچی نسل پیدا کروں گا اور اس کی بادشاہی، ملک میں اقبال مندی اور عدالت و صداقت کے ساتھ ہو گی۔ یہوداہ (یروشلم) اس کے عہد میں نجات پا جائے گا اور اسرائیل (یہودی) سلامتی سے سکونت کر سکے گا۔ (آیات:4-6)
کتاب ایزاخیل وعدے کرتی ہے کہ ”تب وہ جانیں گے کہ میں خداوندان کاخدا ہوں۔ میں نے ہی انہیں غلامی میں قوموں کے اندر روانہ کیا تھا، اور میں نے ہی انہیں ان کے اپنے ملک میں جمع کیا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی پیچھے نہ چھوڑا۔” (باب39، آیت 28)
قارئین بائیبل ان پیشین گوئیوں کو پڑھ کر دل چھوٹا نہ کریں کیونکہ یہ تمام کتابیں قطعی جعلی ہیں اور ان کے ربییّن نے ان میں اپنی من پسند آیات درج کر دی ہیں۔ اگر خدا نے اس قوم سے کوئی وعدہ کیا بھی تھا، جیسا کہ قرآن مجید خود بھی تصدیق کرتا ہے تو وہ ان کی وفاداری اور تقویٰ سے مشروط تھا۔ یہودیوں نے اپنے سازشی ذہن کے باعث اب ان تمام وعدوں میں سے خدائی شرائط کو نکال کے باہر کر دیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان سرکش یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اے یروشلم اے یروشلم (بنی اسرائیل) تو جونیکوں کو قتل کرتا اور رسولوں کو سنگسار کرتا ہے، کتنی بار میں نے چاہا ہے کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو جمع کر لیتی ہے، میں بھی تیرے لڑکوں (قوم) کو جمع کر لوں مگر تو نے ایسا نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران کیا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب مجھے ہرگز نہ دیکھو گے جب تک کہ نہ کہہ لو کہ ”مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آیا ہے۔” (مئی 23، آیات 37-39) ان آیات میں انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے علاوہ یہ بھی ہدایات کی گئی ہے کہ آنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خوش دلی کے ساتھ استقبال کریں۔ یہودی مکاروں کو طنز کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ ”اے سانپو اے افعی کے بچو، تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے؟” (متی 23، آیت33) اور ”اے احمقو اور اندھو۔” (متی 23 آیت 17)
ان پیشین گوئیوں میں قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی پیشین گوئی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بھی کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔ دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے پھلدار کروں گا اور بہت بڑھاؤں گا… اور میں اسے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔” (پیدائش 17، آیت 20) اس طرح کی پیشین گوئیاں انہی کی کتابوں میں مزید کئی مقامات پر بھی ملتی ہیں اور اتفاق سے یہ تمام پیشین گوئیاں پوری بھی ہوئی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل سے متعلق خدائی خوشخبریاں تاحال تکمیل کی منتظر ہیں۔ آج چار ہزار سال کے بعد بھی وعدہ شدہ وسیع و عریض خدائی خطے سے اسرائیل محروم ہے بلکہ اب تک تو اسے مکمل کنعان (فلسطین) بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ اسی طرح منتشر شدہ ہر یہودی بھی قیام اسرائیل کے باوجود اب تک موعودہ وطن میں نہیں لوٹ سکا ہے۔ جبکہ بائبل میں بیان کیا گیا تھا کہ ”میں ان میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیچھے نہ چھوڑوں گا۔ ”تمام تر کشش اور مراعات کے باوجود یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کے یہودی اب بھی اسرائیل آنے پر تیار نہیں ہیں بیشک ربیوں کے نزدیک یہ ان کا ایک گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ٹھہرتا ہو!
قرآن پاک بھی بیان کرتا ہے کہ قیامت سے پہلے ہم یہودیوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے لے آئیں گے۔ (بنی اسرائیل:104) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیشین گوئی فرمائی ہے کہ قیامت سے پہلے مدینہ اجاڑ ہو رہا ہو گا جبکہ یروشلم آباد ہو رہا ہو گا۔(ابوداؤد و بخاری کتاب)۔
بعض عیسائی اور تمام صیہونی مصنفین اس بات کا علانیہ اظہار کرتے ہیں کہ عرب دنیا اور تمام مسلم ممالک کی بدترین مخالفت اور عربوں کی لگاتار و مسلسل عسکری مزاحمت اور صدر ناصر کی اسرائیل پر تھوپی گئی رمضان 1967ء کی جنگ کے باوجود اسرائیل کی موجودگی اور اس کے مسلسل پھلنے اور پھولنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ (١) اسرائیل پر خدا کا ہاتھ ہے (٢) بنی اسرائیل خدا کی چہیتی اور محبوب امت ہے اور (٣) یہ وسیع و عریض خطہ یہودیوں کے ساتھ ایک سچا خدائی وعدہ ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جن جن قوموں نے گزشتہ چار ہزار سالوں میں اسرائیلیوں (خدا کی چہیتی قوم) پر ذلت، غلامی، تشدد اور جنگ مسلط کی تھی، قرب قیامت پر ان سب کو آخر کار ایک خدائی قہر و غضب کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا صحیفہ ”جرمیاہ” دوٹوک طریقے پر اعلان کرتا ہے کہ ”وہ سب جو تجھے نگلتے ہیں، خود نگلے جائیں گے اور تیرے سب دشمن قیدی بنا لیے جائیں گے۔ اور جو تجھے غارت کرتے ہیں خود غارت ہو جائیں گے اور ان سب کو جو تجھے لوٹتے ہیں میں خود لٹا دوں گا۔(باب 30 آیت 16)
وہ کہتے ہیں کہ وہ رومی سلطنت جس نے یہودیوں کو سدا عذاب میں رکھا تھا، خود تباہی سے دو چار ہوئی۔ (البتہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس سلطنت کو یہودیوں کے محسن مسلمانوں نے تباہ کیا تھا)، روسی بادشاہی زار خاندان جو ساری زندگی یہودیوں کا درپے آزار رہا، کمیونسٹ انقلاب میں وہ خود بھی بہیمیت اور درندگی کا نشانہ بنا اور ہٹلر جو یہودیوں کا نسلی اور خونی دشمن تھا، بالآخر خود کشی کے انجام سے دو چار ہوا۔ یہ سارے حقائق درست ہیں لیکن اس موقع پر یہودی بڑی عیاری کے ساتھ اپنے سابق بدترین دشمن یورپی اقوام کا ذکر گول کر جاتے ہیں جنہوں نے یہودیوں کو پورے یورپ میں بری طرح رگیدا، قتل کیا، جلایا اور زمین و جائیداد سے محروم کیا۔ اصولاً تو یورپ کے ان عیسائیوں کو بھی خدا کی چہیتی قوم کو عذابوں میں مبتلا کرنے کی وجہ سے فنا و برباد ہوجانا چاہئے تھا لیکن ان پر اللہ کا غضب نازل ہونا تو کجا یہ یورپی اقوام تو آج پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم بنی ہوئی ہیں۔ اسپین، بیلجیئم، جرمنی، فرانس اور ڈنمارک وغیرہ تو کئی لحاظ سے عالمی قیادت کے منصب پر بھی فائز ہیں۔ لہٰذا یہودی اس موقعہ پر اگر ان عیسائیوں کا ذکر کرتے تو یقینا خدا کی پیشین گوئی غلط نظر آنے لگتی اس لیے انہوں نے سلسلۂ حقائق میں ان کا ذکر گول ہی کر دیا۔ ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم ہے کہ یہودیوں اورعیسائیوں کی تمام رائج الوقت کتب مقدسہ جعلی، من گھڑت اور انسانی کلام میں اصل عبرانی انجیلیں تو یروشلم اور ہیکل کی بار بار تباہیوں اور آتشزدگیوں کے باعث آج سے کئی ہزار سال پہلے ہی دنیا سے مٹ چکی تھیں۔(یہودیوں کے من گھڑت خدائی وعدے)
1967ء کی مصر اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے یروشلم اور دریائے اردن کا مغربی کنارہ چھین لیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ قبضہ سو فیصد درست تھا کیونکہ وعدہ شدہ خدائی حطے کا یہ ایک حصہ ہے۔ سابق وزیراعظم موشے دایان نے دو ٹوک طور پر کہا تھا کہ ”تمام مقدس شہروں کے مقدس شہر (Holy of the Holies) میں یہودی اب کبھی واپس نہ جانے کے لیے لوٹے ہیں۔”
حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ”یروشلم غیر قوموں سے اس وقت تک پامال ہوتا رہے گا جب تک کہ غیر قوموں کی میعادِ اقتدار پوری نہ ہو جائے۔”
(انجیل لوقا:٢١، آیت ٢٤)