یہ رواں سال مارچ کے اوائل کی بات ہے جب فلسطینی سیاسی جماعتیں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور محمود عباس کی جماعت الفتح سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ثالثی پر مکہ مکرمہ میں ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کا معاہدہ کررہی تھیں- اسی دوران میثاق مکہ کو بے اثر کرنے کے لیے اسرائیلی امریکی حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور محمود عباس کو ایک بار پھر اپنے راستے پر لانے کے لیے سوچ بچار کر نے لگے- اسرائیلی وزیر خارجہ ٹسیبی لوینی خصوصی طور پر واشنگٹن کے دورے پرگئیں اور امریکہ کو فلسطینیوں کے باہمی اتحادسے اپنی تشویش سے آگاہ کیا-
اعلان مکہ کے بعد اسرائیل نے صدر عباس اور اس کی جماعت کو حماس کا ساتھی قرار دے کر اس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لینے کا فیصلہ کیا- امریکہ کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا – سو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بھی اولمرٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ حماس کے ساتھ اکٹھا کرنے والی کسی جماعت یا شخصیت سے مذاکرات ختم کر دیے جائیں- اس کے ساتھ ہی امریکہ نے صدر محمود عباس کو دباؤ اور لالچ کے ذریعے حماس سے کیا ہوا معاہدہ توڑنے پرزور دیناشروع کر دیا- امریکی انتظامیہ کی جانب سے صدر محمود عباس کو ایک تحریری فرمان کے ذریعے بتایا گیا کہ امریکہ فلسطین میں امن و امان کے قیام کے لیے اب ٹھوس اقدامات کرنے جا رہا ہے، لیکن یہ اقدامات اسی وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں جب فلسطین سے حماس جیسی متشدد (بنیاد پرست ) اور اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کر دیا جائے – اس سلسلے میں بش انتظامیہ نے غرب اردن کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا- اس منصوبے کا کرتا دھرتاخارجہ کمیٹی کے اعلی عہدیدار لیفٹیننٹ جنرل کیٹ ڈائٹون کو بنایا گیا – اس سے کچھ ہی عرصہ قبل جنرل ڈائٹون کا مشرق وسطی امور کے لیے بطور معاون تقرر عمل میں لایا گیا تھا-
جنرل کیٹ ڈائٹون نے فوری طور پر غرب اردن کے لیے ایک نئے امن منصوبے پر کام شروع کیا- چنانچہ اس منصوبے کو اگرچہ خفیہ رکھا گیا تاہم اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے اپنی اپریل کی آخری اشاعت میں اسرائیل کے کسی بھی ممکنہ امن منصوبے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کر دی- اس رپورٹ کی امریکی حکام نے تردید کی- اسی طرح یکم مئی کو ایک اردنی ہفت روزے ’’ الماجد‘‘ نے سولہ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی جس میں فلسطین خصوصا مشرق وسطی کے لیے نئے امریکی منصوبے کی تفصیلات جاری کی گئی تھیں-
عجیب بات یہ ہے اس سے قبل اسرائیلی اخبار میں اس منصوبے کے انکشاف کے بعد امریکہ نے محض تردید کی جبکہ اردنی ہفت روزے کی اشاعت پر اسے سینر شپ کا سامنا کرنا پڑا- چنانچہ اردنی حکام نے امریکی اور اسرائیلی دباؤ کے تحت ’’الماجد‘‘پر پابندی عائد کردی اور غیر معینہ مدت کے لیے اس کی اشاعت روک دی- بال خر اردن کی جنرنلسٹ کونسل کے چیئرمین طارق المومانی کی کوششوں سے اخبار سے سینسر شپ اٹھالی گئی- بعد میں معلوم ہوا کہ اس منصوبے کے پس پردہ مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عمر سلیمان کی کوششیں بھی شامل ہیں- انہوں نے امریکی حکام سے فلسطینی صدر کو حماس سے الگ کرنے کے لیے اس نوعو کے منصوبے پر کام کرنے کی حکمت بتائی تھی- رپورٹ میں عمر سلیمان کو بھی ڈائٹون پلان کا منصوبہ سازوں میں شامل کیا جاتا ہے-
بعد ازاں یہ رپورٹ دیگر اخبارات کی بھی زینت بنتی رہی اور امریکی منصوبہ طشت ازبام ہوتا رہا- اس خفیہ منصوبے میں کچھ شرائط ایسی تھیں جن کا تعلق براہ راست امریکہ اور فلسطینی صدر سے تھا جبکہ کچھ شرائط کی زد اسرائیل پر بھی پڑتی تھی- منصوبے کا نام ’’ڈائٹون پلان‘‘Dayton Plan رکھا گیا- ’’ڈائٹون پلان‘‘ کے تحت امریکہ نے فلسطین میں امن و امان کے قیام اور اسرائیل مخالف مزاحمت کے خاتمے کی شرائط کے تحت 5 ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی- اس خطیر رقم میں سے 2 ملین ڈالر فلسطینی صد محمود عباس کے زیر کمانڈ سکیورٹی ہلکے ہتھیاروں کی صورت میں میں دینا تھے- رقم اور اسلحہ محمود عباس تک پہنچانے کے لیے صدر عباس کو کئی امریکی شرائط بھی تسلیم کرنا تھیں- مثال کے طور پر صدر محمود عباس فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں سے اتحاد توڑ کر اسرائیل سے مذاکرات شروع کریں گے- اسلحہ اور رقوم کے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ہاتھ نہ لگنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی- اسرائیل پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کو بزور قوت روکنا ہوگا- انسٹھ ملین ڈالر کی رقم میں سے کچھ حصہ فلسطین کے ان ملازمین کے لیے مختص ہے جو الفتح سے وابستہ ہیں، غزہ کے مفلوک الحال شہریوں اور حماس سے ہمدردی رکھنے والوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا- رقم فوری طورپر ادا نہیں کی جائے گی بلکہ مرحلہ وار اور شرائط پر عمل در آمد کو دیکھتے ہوئے فراہم کی جائے گی-
ہازٹز کی رپورٹ میں’’ ڈائٹون پلان‘‘ میں کچھ اقدامات اسرائیل سے اٹھانے کا بھی مطالبہ شامل تھا، جو بعد میں ختم کر دیا گیا- اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ،غرب اردن میں قائم 450 غیر قانونی فوجی چوکیوں کو ختم کر دے، شہریوں کو آمد رفت میں سہولت فراہم کرے، رفح، کرم ابو سالم اور ’’عوجا‘‘ جیسی بین الاقوامی راہداریوں پر مسافروں کو سہولیات فراہم کی جائیں-غرب اردن کے شہریوں کو 1948 ء کے مقبوضہ فلسطین میں محنت مزدوری کے لیے جانے کی اجازت مہیا کی جائے- محمود عباس کے ساتھ مذاکرات میں جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کی پارٹی کے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے وغیرہ- اسرائیل نے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے یکسرمسترد کر دیا- اس کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ’’ ڈائٹون پلان میں اسرائیل کے سامنے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط نا قابل قبول ہیں- فوجی چوکیوں کے ہٹانے یا کم کرنے سے اسرائیل مزید حملوں کی زد میں جائے گا- غرب اردن کے شہریوں کو تل ابیب تک رسائی فراہم کرنے اور ان کی آمد رفت میں نرمی لانے کا مطلب خود کش بمباروں کو تل ابیب پر حملے کرنے کا موقع فراہم کرنا ہوگا، البتہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ محمودعباس سے ہونے والے مذاکرات میں اعتماد پر منحصر ہے- اگر محمود عباس نے اسرائیلی شرائط پر مذاکرات کیے تو اسرائیل اس بارے میں مثبت قدم اٹھائے گا‘‘- بعدمیں اولمرٹ عباس ملاقاتوں میں اسرائیل نے ’’اعتماد سازی‘‘ اور ’’خیر سگالی‘‘ کے جذبے کے تحت250 قیدیوں کو رہا کر دیا تھا- اڑھائی سو افراد کی رہائی کے ساتھ ہی اسرائیل نے چکمہ دے کر تین سو شہری گرفتار کر لیے- مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں چالیس افراد ایسے بھی ہیں جنہیں ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ کے تحت حال ہی میں رہا کیا گیا تھا –
ڈائٹون پلان پر عمل درآمد کے لیے جنرل ڈائٹون آجکل پھر متحرک ہیں- اسرائیل پر عائد کردہ شرائط پر نظر ثانی کرتے ہوئے فوجی چوکیوں اور شہریوں کے1948 کے مقبوضہ علاقوں تک رسائی کی شرائط ختم کردی گئی ہیں- اگست کی 26 تاریخ کو فلسطینی صدر محمود عباس (ابو مازن) اور اولمرٹ کے درمیان مقبوضہ بیت المقدس میں خفیہ مذاکرات کے دوران صدر محمود عباس نے اولمرٹ سے ڈائٹون پلان کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے- دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ نے صدر محمود عباس کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد جنرل ڈائٹون سے ملاقات کر کے اس پلان پر کام شروع کرنے کی کوشش کریں گے-
یہ رواں سال مارچ کے اوائل کی بات ہے جب فلسطینی سیاسی جماعتیں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور محمود عباس کی جماعت الفتح سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ثالثی پر مکہ مکرمہ میں ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کا معاہدہ کررہی تھیں- اسی دوران میثاق مکہ کو بے اثر کرنے کے لیے اسرائیلی امریکی حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور محمود عباس کو ایک بار پھر اپنے راستے پر لانے کے لیے سوچ بچار کر نے لگے- اسرائیلی وزیر خارجہ ٹسیبی لوینی خصوصی طور پر واشنگٹن کے دورے پرگئیں اور امریکہ کو فلسطینیوں کے باہمی اتحادسے اپنی تشویش سے آگاہ کیا-
اعلان مکہ کے بعد اسرائیل نے صدر عباس اور اس کی جماعت کو حماس کا ساتھی قرار دے کر اس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لینے کا فیصلہ کیا- امریکہ کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا – سو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بھی اولمرٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ حماس کے ساتھ اکٹھا کرنے والی کسی جماعت یا شخصیت سے مذاکرات ختم کر دیے جائیں- اس کے ساتھ ہی امریکہ نے صدر محمود عباس کو دباؤ اور لالچ کے ذریعے حماس سے کیا ہوا معاہدہ توڑنے پرزور دیناشروع کر دیا- امریکی انتظامیہ کی جانب سے صدر محمود عباس کو ایک تحریری فرمان کے ذریعے بتایا گیا کہ امریکہ فلسطین میں امن و امان کے قیام کے لیے اب ٹھوس اقدامات کرنے جا رہا ہے، لیکن یہ اقدامات اسی وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں جب فلسطین سے حماس جیسی متشدد (بنیاد پرست ) اور اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کر دیا جائے – اس سلسلے میں بش انتظامیہ نے غرب اردن کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا- اس منصوبے کا کرتا دھرتاخارجہ کمیٹی کے اعلی عہدیدار لیفٹیننٹ جنرل کیٹ ڈائٹون کو بنایا گیا – اس سے کچھ ہی عرصہ قبل جنرل ڈائٹون کا مشرق وسطی امور کے لیے بطور معاون تقرر عمل میں لایا گیا تھا-
جنرل کیٹ ڈائٹون نے فوری طور پر غرب اردن کے لیے ایک نئے امن منصوبے پر کام شروع کیا- چنانچہ اس منصوبے کو اگرچہ خفیہ رکھا گیا تاہم اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے اپنی اپریل کی آخری اشاعت میں اسرائیل کے کسی بھی ممکنہ امن منصوبے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کر دی- اس رپورٹ کی امریکی حکام نے تردید کی- اسی طرح یکم مئی کو ایک اردنی ہفت روزے ’’ الماجد‘‘ نے سولہ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی جس میں فلسطین خصوصا مشرق وسطی کے لیے نئے امریکی منصوبے کی تفصیلات جاری کی گئی تھیں-
عجیب بات یہ ہے اس سے قبل اسرائیلی اخبار میں اس منصوبے کے انکشاف کے بعد امریکہ نے محض تردید کی جبکہ اردنی ہفت روزے کی اشاعت پر اسے سینر شپ کا سامنا کرنا پڑا- چنانچہ اردنی حکام نے امریکی اور اسرائیلی دباؤ کے تحت ’’الماجد‘‘پر پابندی عائد کردی اور غیر معینہ مدت کے لیے اس کی اشاعت روک دی- بال خر اردن کی جنرنلسٹ کونسل کے چیئرمین طارق المومانی کی کوششوں سے اخبار سے سینسر شپ اٹھالی گئی- بعد میں معلوم ہوا کہ اس منصوبے کے پس پردہ مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عمر سلیمان کی کوششیں بھی شامل ہیں- انہوں نے امریکی حکام سے فلسطینی صدر کو حماس سے الگ کرنے کے لیے اس نوعو کے منصوبے پر کام کرنے کی حکمت بتائی تھی- رپورٹ میں عمر سلیمان کو بھی ڈائٹون پلان کا منصوبہ سازوں میں شامل کیا جاتا ہے-
بعد ازاں یہ رپورٹ دیگر اخبارات کی بھی زینت بنتی رہی اور امریکی منصوبہ طشت ازبام ہوتا رہا- اس خفیہ منصوبے میں کچھ شرائط ایسی تھیں جن کا تعلق براہ راست امریکہ اور فلسطینی صدر سے تھا جبکہ کچھ شرائط کی زد اسرائیل پر بھی پڑتی تھی- منصوبے کا نام ’’ڈائٹون پلان‘‘Dayton Plan رکھا گیا- ’’ڈائٹون پلان‘‘ کے تحت امریکہ نے فلسطین میں امن و امان کے قیام اور اسرائیل مخالف مزاحمت کے خاتمے کی شرائط کے تحت 5 ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی- اس خطیر رقم میں سے 2 ملین ڈالر فلسطینی صد محمود عباس کے زیر کمانڈ سکیورٹی ہلکے ہتھیاروں کی صورت میں میں دینا تھے- رقم اور اسلحہ محمود عباس تک پہنچانے کے لیے صدر عباس کو کئی امریکی شرائط بھی تسلیم کرنا تھیں- مثال کے طور پر صدر محمود عباس فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں سے اتحاد توڑ کر اسرائیل سے مذاکرات شروع کریں گے- اسلحہ اور رقوم کے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ہاتھ نہ لگنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی- اسرائیل پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کو بزور قوت روکنا ہوگا- انسٹھ ملین ڈالر کی رقم میں سے کچھ حصہ فلسطین کے ان ملازمین کے لیے مختص ہے جو الفتح سے وابستہ ہیں، غزہ کے مفلوک الحال شہریوں اور حماس سے ہمدردی رکھنے والوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا- رقم فوری طورپر ادا نہیں کی جائے گی بلکہ مرحلہ وار اور شرائط پر عمل در آمد کو دیکھتے ہوئے فراہم کی جائے گی-
ہازٹز کی رپورٹ میں’’ ڈائٹون پلان‘‘ میں کچھ اقدامات اسرائیل سے اٹھانے کا بھی مطالبہ شامل تھا، جو بعد میں ختم کر دیا گیا- اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ،غرب اردن میں قائم 450 غیر قانونی فوجی چوکیوں کو ختم کر دے، شہریوں کو آمد رفت میں سہولت فراہم کرے، رفح، کرم ابو سالم اور ’’عوجا‘‘ جیسی بین الاقوامی راہداریوں پر مسافروں کو سہولیات فراہم کی جائیں-غرب اردن کے شہریوں کو 1948 ء کے مقبوضہ فلسطین میں محنت مزدوری کے لیے جانے کی اجازت مہیا کی جائے- محمود عباس کے ساتھ مذاکرات میں جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کی پارٹی کے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے وغیرہ- اسرائیل نے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے یکسرمسترد کر دیا- اس کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ’’ ڈائٹون پلان میں اسرائیل کے سامنے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط نا قابل قبول ہیں- فوجی چوکیوں کے ہٹانے یا کم کرنے سے اسرائیل مزید حملوں کی زد میں جائے گا- غرب اردن کے شہریوں کو تل ابیب تک رسائی فراہم کرنے اور ان کی آمد رفت میں نرمی لانے کا مطلب خود کش بمباروں کو تل ابیب پر حملے کرنے کا موقع فراہم کرنا ہوگا، البتہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ محمودعباس سے ہونے والے مذاکرات میں اعتماد پر منحصر ہے- اگر محمود عباس نے اسرائیلی شرائط پر مذاکرات کیے تو اسرائیل اس بارے میں مثبت قدم اٹھائے گا‘‘- بعدمیں اولمرٹ عباس ملاقاتوں میں اسرائیل نے ’’اعتماد سازی‘‘ اور ’’خیر سگالی‘‘ کے جذبے کے تحت250 قیدیوں کو رہا کر دیا تھا- اڑھائی سو افراد کی رہائی کے ساتھ ہی اسرائیل نے چکمہ دے کر تین سو شہری گرفتار کر لیے- مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں چالیس افراد ایسے بھی ہیں جنہیں ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ کے تحت حال ہی میں رہا کیا گیا تھا –
ڈائٹون پلان پر عمل درآمد کے لیے جنرل ڈائٹون آجکل پھر متحرک ہیں- اسرائیل پر عائد کردہ شرائط پر نظر ثانی کرتے ہوئے فوجی چوکیوں اور شہریوں کے1948 کے مقبوضہ علاقوں تک رسائی کی شرائط ختم کردی گئی ہیں- اگست کی 26 تاریخ کو فلسطینی صدر محمود عباس (ابو مازن) اور اولمرٹ کے درمیان مقبوضہ بیت المقدس میں خفیہ مذاکرات کے دوران صدر محمود عباس نے اولمرٹ سے ڈائٹون پلان کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے- دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ نے صدر محمود عباس کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد جنرل ڈائٹون سے ملاقات کر کے اس پلان پر کام شروع کرنے کی کوشش کریں گے-
(ڈائٹون پلان)
بدھ 10-اکتوبر-2007
لینک کوتاه: