موساد کے جاسوسوں نے 25دسمبر کو بیت للحم میں واقع عیسایوں کے مقدس مقام نیٹی ویٹی چرچ کو بم سے اڑنے کی کوشش کی، مگر ان کو کارروائی سے قبل ہی گرفتار کر لیا گیا-
محمود عباس کی سیکورٹی فورسز نے ایجنٹوں کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا، جب اسرائیلی انتظامیہ کو خبر ہوئی کہ ان کے ایجنٹ پکڑے گئے ہیں تو اسرائیلی وزیر اعظم نے فوری طور پرمحمود عباس کے ساتھ رابطہ کیا اور اپنے ایجنٹوں کو رہا کرانے کا مطالبہ کیا محمود عباس نے خیر سلگالی کے طور پر ان ایجنٹوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا ،اس سے ان ایجنٹوں کے وہ سارے منصوبے بے نقاب ہونے سے رہ گئے جو انھوں نے ترتیب دے رکھے تھے-نیٹی ویٹی چرچ کو اڑا کر سارا الزام حما س پر لگا دینا تھا ،پورے یورپ میں اپنے میڈیا کے ذریعے مہم چلانی تھی کہ دیکھو حما س کی دستبرد سے عیسایوں کے مقدس مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں مغرب نے اسی کو جواز بنا کر غزہ پر حملہ کردینا تھا -یہ کسی نے نہیں دیکھنا تھا کہ آیا نیٹی ویٹی چرچ پر حملہ کس نے کیا ہے یا کس نے کرایا ہے –
محمود عباس دوستی کا مظاہر ہ نہ کرتے موساد کے ان ایجنٹوں کو عالمی میڈیا کے سامنے لے آتے تو یقینا حقیقت حال دنیا پر عیاں ہوجاتی اور دنیا کو پتہ چل جاتا کہ کارروائی کون کر رہا ہے اور سزا کس کو دی جاتی ہے ؟
مجھے پختہ یقین ہے کہ مسیحی فلسطینی بھائی اور بہنیں اسرائیل کو کبھی بھی اس کی اجازت نہ دیں گے کہ اسرائیل نسلی صفائی تشدد اور عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈے کے لئے بھی انہیں استعمال کرے- فلسطین کے مسیحی ، جنہیں صہیونیوں کے ظلم وزیادتی اور جبر و تشدد میں برابر کا حصہ ملا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیلی تشدد ، مسلم فلسطینی اور مسیحی فلسطینیوں میں فرق نہیں کرتا- نومبر 1948ء میں ہگانہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے بالائی گمیلی کے دو مسیحی دیہاتوں اکریت اور بکریم کو روند ڈالا اور وہاں کے رہنے والوں کو بندوق کی نوک پر نکال باہر کیا – پوری آبادی کا خاتمہ کردینے کا پروگرام اسرائیلی حکومت کی رضا مندی کے بغیرکیسے عمل میں آیا ، تاہم اسرائیل کی جمہوری حکومت نے مسیحی فلسطینیوں کو کبھی واپسی کی اجازت نہیں دی- اگرچہ اسرائیلی ہائی کورٹس اس کے خلاف کئی بار فیصلہ کرچکی ہیں –
1967ء سے اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ وہ فلسطینیو ں کی یکجہتی کو ختم کرنے کی کوشش کرے ، مسلمانوں کو مسیحیوں کے خلاف کیا گیا ، مسیحیوں کو مسلمانوں کے خلاف کیا گیا ، چند سال قبل ، اسرائیلی انٹیلی جنس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ وسطی اور شمالی مغربی کنارے میں واقع گرجاگھروں میں پتھر اور شراب پھینکیں تاکہ شمالی امریکہ میں اس کے خلاف ردعمل ہو کہ جہاں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف فضا پہلے ہی گرم ہے – اسی اثناء میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ خصوصاً دائیں بازو کے اخبارات مثلاً یروشلم پوسٹ وغیہ نے ایسی کہانیاں گھڑیں اور شائع کیں کہ بیت لحم میں مسیحی لڑکیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے اور ان کو قتل کیا جاتاہے –
فطری طور پر ایونیجیلیکل بنیاد پرستوں نے ان جھوٹی خبروں کو مرچ مصالحہ لایا اور انہیں کئی گنا بڑھا کر مزید پھیلایا ، ارض مقدس میں اس سرگرمی سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف یقیناً اسرائیلی اقتدار اور نسلی امتیاز کو تقویت ملے گی- امریکہ اور کینیڈا میں کئی سادہ ، معصوم لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ اسرائیلی قابض فوجوں نے مغربی کنارے کے مسیحیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہوا ہے- وہ یہ جانتے نہیں ہیں کہ اسرائیل بندوق کے زور پر بیت لحم، بیت جالہ بیت ساحور اور بیت المقدس میں کلیسا کی اراضی اور املاک پر قبضہ کیے جا رہا ہے –
وہ یہ جانتے نہیں ہیں کہ اسرائیل ،مسیحیوں چاہے پادری ہوں یا عام افراد ہوں کو بیت المقدس میں واقع مقدس مقامات تک جانے کی اجازت نہیں دیتا، مثلاً سفلچر چرچ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسرائیل کے نوجوان یہودی بیت المقدس کے بازاروں میں پادریوں کو سرعام ہراساں کرتے ہیں ان پر تھوکتے ہیں، وہاں سپاہی بھی موجود ہوتے ہیں جو مکمل خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں-
انہیں معلوم نہیں ہے کہ پیدل آنے جانے والے مسیحی افراد کو پولیس ناکوں اور رکاوٹوں پر ذلیل کرتی ہے ، جس سے ان کی روزمرہ زندگی ، ایک ڈراؤنے خواب کی صورت اختیار کرچکی ہے – وہ نہیں جانتے کہ اسرائیل نے بیت لحم کو ایک باڑے میں تبدیل کردیا ہے اس کی وجہ وہ شرمناک دیوار ہے جسے اسرائیل علیحدگی کی دیوار قرار دیتاہے لیکن حقیقت میں اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں سے جس قدر زمین بھی چھینی جا سکے چھین لی جائے-
بیت لحم آکر انہیں آنکھوں سے دیکھاجا سکتاہے کہ اسرائیل ، اس ملک میں رہنے والے مسیحی فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے اور مسیحیوں کے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ کیا کررہاہے – یقیناً وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے- یہ ضروری ہے کہ مسیحی خصوصاً وہ مسیحی کہ جو شمالی امریکہ میں رہتے ہیں سنجیدہ اقدامات کے ذریعے اسرائیل کو اپنے جرائم سے روکیں – یہ کام انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر مغربی گروپوں کی مدد سے بھی کی جاسکتی ہیں جو مغربی کنارے میں کام کررہی ہیں مثلاً کرسچین پیس میکنگ ٹیم اور انٹرنیشنل سالیڈیریٹی موومنٹ گروپ کے ڈائریکٹر ربی یے خیل ایک سٹائن کا ہے کہ وہ ان جرائم کو بے نقاب کریں اور اسرائیل کو اس طرح کے جرائم کرنے سے روکیں –بشکریہ "خبریں”
محمود عباس کی سیکورٹی فورسز نے ایجنٹوں کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا، جب اسرائیلی انتظامیہ کو خبر ہوئی کہ ان کے ایجنٹ پکڑے گئے ہیں تو اسرائیلی وزیر اعظم نے فوری طور پرمحمود عباس کے ساتھ رابطہ کیا اور اپنے ایجنٹوں کو رہا کرانے کا مطالبہ کیا محمود عباس نے خیر سلگالی کے طور پر ان ایجنٹوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا ،اس سے ان ایجنٹوں کے وہ سارے منصوبے بے نقاب ہونے سے رہ گئے جو انھوں نے ترتیب دے رکھے تھے-نیٹی ویٹی چرچ کو اڑا کر سارا الزام حما س پر لگا دینا تھا ،پورے یورپ میں اپنے میڈیا کے ذریعے مہم چلانی تھی کہ دیکھو حما س کی دستبرد سے عیسایوں کے مقدس مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں مغرب نے اسی کو جواز بنا کر غزہ پر حملہ کردینا تھا -یہ کسی نے نہیں دیکھنا تھا کہ آیا نیٹی ویٹی چرچ پر حملہ کس نے کیا ہے یا کس نے کرایا ہے –
محمود عباس دوستی کا مظاہر ہ نہ کرتے موساد کے ان ایجنٹوں کو عالمی میڈیا کے سامنے لے آتے تو یقینا حقیقت حال دنیا پر عیاں ہوجاتی اور دنیا کو پتہ چل جاتا کہ کارروائی کون کر رہا ہے اور سزا کس کو دی جاتی ہے ؟
مجھے پختہ یقین ہے کہ مسیحی فلسطینی بھائی اور بہنیں اسرائیل کو کبھی بھی اس کی اجازت نہ دیں گے کہ اسرائیل نسلی صفائی تشدد اور عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈے کے لئے بھی انہیں استعمال کرے- فلسطین کے مسیحی ، جنہیں صہیونیوں کے ظلم وزیادتی اور جبر و تشدد میں برابر کا حصہ ملا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیلی تشدد ، مسلم فلسطینی اور مسیحی فلسطینیوں میں فرق نہیں کرتا- نومبر 1948ء میں ہگانہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے بالائی گمیلی کے دو مسیحی دیہاتوں اکریت اور بکریم کو روند ڈالا اور وہاں کے رہنے والوں کو بندوق کی نوک پر نکال باہر کیا – پوری آبادی کا خاتمہ کردینے کا پروگرام اسرائیلی حکومت کی رضا مندی کے بغیرکیسے عمل میں آیا ، تاہم اسرائیل کی جمہوری حکومت نے مسیحی فلسطینیوں کو کبھی واپسی کی اجازت نہیں دی- اگرچہ اسرائیلی ہائی کورٹس اس کے خلاف کئی بار فیصلہ کرچکی ہیں –
1967ء سے اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ وہ فلسطینیو ں کی یکجہتی کو ختم کرنے کی کوشش کرے ، مسلمانوں کو مسیحیوں کے خلاف کیا گیا ، مسیحیوں کو مسلمانوں کے خلاف کیا گیا ، چند سال قبل ، اسرائیلی انٹیلی جنس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ وسطی اور شمالی مغربی کنارے میں واقع گرجاگھروں میں پتھر اور شراب پھینکیں تاکہ شمالی امریکہ میں اس کے خلاف ردعمل ہو کہ جہاں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف فضا پہلے ہی گرم ہے – اسی اثناء میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ خصوصاً دائیں بازو کے اخبارات مثلاً یروشلم پوسٹ وغیہ نے ایسی کہانیاں گھڑیں اور شائع کیں کہ بیت لحم میں مسیحی لڑکیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے اور ان کو قتل کیا جاتاہے –
فطری طور پر ایونیجیلیکل بنیاد پرستوں نے ان جھوٹی خبروں کو مرچ مصالحہ لایا اور انہیں کئی گنا بڑھا کر مزید پھیلایا ، ارض مقدس میں اس سرگرمی سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف یقیناً اسرائیلی اقتدار اور نسلی امتیاز کو تقویت ملے گی- امریکہ اور کینیڈا میں کئی سادہ ، معصوم لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ اسرائیلی قابض فوجوں نے مغربی کنارے کے مسیحیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہوا ہے- وہ یہ جانتے نہیں ہیں کہ اسرائیل بندوق کے زور پر بیت لحم، بیت جالہ بیت ساحور اور بیت المقدس میں کلیسا کی اراضی اور املاک پر قبضہ کیے جا رہا ہے –
وہ یہ جانتے نہیں ہیں کہ اسرائیل ،مسیحیوں چاہے پادری ہوں یا عام افراد ہوں کو بیت المقدس میں واقع مقدس مقامات تک جانے کی اجازت نہیں دیتا، مثلاً سفلچر چرچ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسرائیل کے نوجوان یہودی بیت المقدس کے بازاروں میں پادریوں کو سرعام ہراساں کرتے ہیں ان پر تھوکتے ہیں، وہاں سپاہی بھی موجود ہوتے ہیں جو مکمل خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں-
انہیں معلوم نہیں ہے کہ پیدل آنے جانے والے مسیحی افراد کو پولیس ناکوں اور رکاوٹوں پر ذلیل کرتی ہے ، جس سے ان کی روزمرہ زندگی ، ایک ڈراؤنے خواب کی صورت اختیار کرچکی ہے – وہ نہیں جانتے کہ اسرائیل نے بیت لحم کو ایک باڑے میں تبدیل کردیا ہے اس کی وجہ وہ شرمناک دیوار ہے جسے اسرائیل علیحدگی کی دیوار قرار دیتاہے لیکن حقیقت میں اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں سے جس قدر زمین بھی چھینی جا سکے چھین لی جائے-
بیت لحم آکر انہیں آنکھوں سے دیکھاجا سکتاہے کہ اسرائیل ، اس ملک میں رہنے والے مسیحی فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے اور مسیحیوں کے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ کیا کررہاہے – یقیناً وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے- یہ ضروری ہے کہ مسیحی خصوصاً وہ مسیحی کہ جو شمالی امریکہ میں رہتے ہیں سنجیدہ اقدامات کے ذریعے اسرائیل کو اپنے جرائم سے روکیں – یہ کام انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر مغربی گروپوں کی مدد سے بھی کی جاسکتی ہیں جو مغربی کنارے میں کام کررہی ہیں مثلاً کرسچین پیس میکنگ ٹیم اور انٹرنیشنل سالیڈیریٹی موومنٹ گروپ کے ڈائریکٹر ربی یے خیل ایک سٹائن کا ہے کہ وہ ان جرائم کو بے نقاب کریں اور اسرائیل کو اس طرح کے جرائم کرنے سے روکیں –بشکریہ "خبریں”