اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اور دنیا میں کوئی بھی کہیں بھی ایسا فرد ہے جو یہ حوصلہ رکھتا ہو یا اس میں اس قدر برداشت ہو کہ وہ یہ معلوم کر سکے کہ بنجمن نیتن یاہو کے دل میں کیا ہے، اس کی حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔ تاہم وہ جو یہ سب جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کیا کرنے والے ہیں، انہیں اس تصویر کو ضرور دیکھنا چاہیے جس میں ایک بظاہر غیر سیاسی واقعہ پیش کیا گیا ہے، یہ واقعہ نیتن یاہو کی ذاتی زندگی سے، اس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نیشنل بائبل کوئز کی تصویر ہے جس میں سارہ اور بینجمن نیتن یاہو کا بیٹا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ ایک خوش گوار منظر ہے۔ یہ ایک پرانی تصویر ہے۔ ایک فخر کرنے والے اور شاندار نظر آنے والے خاندان کی یہ ایک تصویر ہے۔ ان میں ان کے دو عمر رسیدہ دادا اور دادی بھی موجود ہیں۔ وہ یاہو کے بیٹے انور کے اطراف موجود ہیں۔ وہ ان دونوں کے تحکمانہ سایے میں کھڑا ہے۔ اس خاندان کو قدیم کتابوں کا متن جاننے میں مہارت حاصل ہے۔ وہ بائبل کو بھی سمجھتے ہیں اور تاریخ پر بھی ان کی نظریں لگی رہتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک مشن کی روشنی ہے۔ وہ یہودی شان و شوکت سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں۔
اس خاندان کو ایک نظر دیکھنا ہی کافی ہے۔ یہی خاندان ہے جس سے آج کے وزیراعظم کا تعلق ہے۔ وہ اپنے پہلے وزرائے اعظم سے اپنے مقاصد کے اعتبار سے مختلف ہے، وہ اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے منفرد ہے، وہ اپنے اعمال اور مفادات میں بھی ان سے جدا ہے۔ وہ آج کے عالمی رہنماؤں سے بھی اسی طرح سے مختلف ہے، الگ ہے۔
آج امریکا کے ساتھ اسرائیل کے بحران کی جڑیں بھی اسی حقیقت میں ملیں گی۔ بنجمن نیتن یاہو کو بین الاقوامی منظر نامے میں اس کے حقیقی کردار میں دیکھنے والوں نے اسے سمجھنے میں فاش غلطی کی ہے۔ وہ مسائل سے اٹے اپنے روز مرہ کے سیاسی کردار سے بالکل الگ تھلگ اس منفرد میدان میں واضح نظر آ رہا ہے۔ یہ ایک طرح کا سراب ہے جو نت نئے طریقے سے مایوسیوں کی آبیاری کرتا نظر آتا ہے۔ وہ بطور وزیراعظم پہلے بھی ایسا ہی تھا اور اب بھی اس میں سرِمو فرق نہیں آیا ہے۔ پہلی نظر میں، نیتن یاہو کم از کم ایک عام ملک کا ایک جدید سیاستدان دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایک تھکا دینے والا مدبر ہے اور اپنے وجود میں وہ ایک متحرک فرد ہے اس کے ساتھ سیاسی مذاکرات میں کوئی بھی اس سے کسی بھی ایشو پر، حتیٰ کہ مقبوضہ بیت المقدس پر بھی بات کر سکتا ہے، ڈیل کر سکتا ہے۔
لیکن یہ ایک زبردست نظری سراب ہے۔ وہ اپنی ذاتی رائے اور دنیا کے بارے میں نقطۂ نظر میں ان بڑے انارکی پسند اور فرسودہ ذہنیت وزرائے اعظم میں سے ایک ہے اور شاید اسرائیل کو ایسا وزیراعظم پہلے کبھی ملا ہی نہیں۔ وہ اپنے سے پہلے آنے والے جملہ وزرائے اعظم سے زیادہ بوڑھا ہے، وہ ان بوڑھوں سے بھی بوڑھا ہے جن سے شاید عمر میں وہ چھوٹا ہی ہو گا۔ ان میں سے بعض لچک دکھانے کے حق میں تھے۔ وہ شاید حالات کے دھاروں کا رُخ دیکھ کر کام کرتے تھے۔ وہ بزرگ دکھائی دیتے ہیں اور وہ تھے بھی باپ جیسے۔ ان کے برعکس نیتن یاہو، اچھا ہے یا برا ہے، پہلے بھی ایسا تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے، وہ اپنے کردار میں اسرائیل کے ایک اچھے بیٹے کا روپ رکھتا ہے۔ اس کی بنیادی دلچسپی یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے خاندان کی روایات کو کس طرح سے آگے بڑھائے۔ ساری دنیا بھی اس کے خلاف کھڑی ہو جائے، وہ ان روایات سے کبھی ہٹ نہیں سکتا۔
اس طرح سے اس بات میں کوئی حیرانی کا پہلو نہیں کہ جب اس سے امریکی یا دوسری بین الاقوامی سفارت کار سیب کی بات کرتے ہیں، وہ جواب میں انہیں ناشپاتی پیش کر دیتا ہے۔ (جب معاملہ مقبوضہ بیت المقدس اور یہودی بستیوں کا ہو تو اس کا ترکش کبھی تیروں سے خالی نہیں رہتا)۔ اسے لوگ سیاسی دیانتداری کی طرف لانا چاہتے ہیں، اسے جغرافیہ اور آبادی کے اعداد و شمار سمجھاتے ہیں، وہ ان سے کہتا ہے کہ اصولوں کی بات کرو۔ اگرچہ اس سے پہلے آنے والے بہت سے وزرائے اعظم نے بھی یہی کچھ کیا، لیکن اس جیسا شاطرانہ انداز اور سراب سے اَٹا ہوا وزیراعظم اور کوئی تھا ہی نہیں۔
یہ درست ہے کہ نیتن یاہو کے ہاتھ اتحادی حکومت نے باندھ رکھے ہیں، لیکن یہ مت بھولیے گا کہ یہ بھی ایک بہت بڑے سراب کا ہی حصہ ہے۔ آخر کار اسی نے تو ان پابندیوں کو مجبور کیا ہے کہ ان کو لگایا جائے۔ اس نے کابینہ بنانے میں بھی اسی چالاکی سے کام لیا تھا۔ معاف کیجیے گا کہ اس نے یہ سارا بندوبست اس لیے کیا کہ وہ ”ناکام” نہ ہو جائے۔ اللہ معاف کرے اس نے ایک حربی چال چلی ہے۔ اس نے دو ریاستوں کے بارے میں جو کچھ اصولی طور پر کہا ہے، کیا واقعی اس کا حقیقی مقصد بھی یہی ہے۔ آخر کار اس نے ایک سال پہلے یہی الفاظ ادا کرنے سے کیوں انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ اس وقت وہ قدیمہ کے ساتھ اتحاد سازی کے لیے مذاکرات کر رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو دراصل مقبوضہ بیت المقدس کے وزیر اعظم کے طور پر کام کرتا ہے، وہ پورے ملک کا وزیراعظم ہو کر بھی ایسا اپنے عمل سے نہیں سمجھتا۔ اسے ”بیت المقدس” کا ہی وزیراعظم کہنا درست ہو گا۔ وہ اس شہر کا وزیراعظم ہے جو درحقیقت سمجھا جاتا ہے، جس کی اپنی مشکلات ہیں، جس کی آبادی کے اپنے مسائل ہیں اور ان کے عملی حل اس کے پاس موجود رہتے ہیں۔ وہ ان کو مجموعی معاہدے کا حصہ بنا دیتا ہے۔ وہ تو اس زمین پر جنت کا وزیراعظم ہے جو کہ بیت المقدس ہے۔ وہ تشبیہ، استعارہ، حلف اور وعدوں کے بیت المقدس کا وزیراعظم ہے۔ وہ بائبل اور صہیون سے محبت کے بیت المقدس کا وزیراعظم ہے، وہ دیوار گریہ کا وزیراعظم ہے، اس کی سرنگوں کا اور بائبل کو تزکا وزیراعظم ہے۔ دراصل وہ ہمارے وجود کی چٹان کا وزیراعظم ہے۔ وہ ایک مذہبی، تصوراتی اور عظیم وعدے کے بیت المقدس کا وزیراعظم ہے۔ یہ وہ بیت المقدس ہے جس کے بارے میں انتظامات کو، وعدوں اور معاہدوں کو کبھی تصور میں لایا ہی نہیں جا سکتا۔
شاید یہ سب کچھ عملی صہیونیت کا متضاد محسوس ہو، اسی میں تو اسرائیل کے احیاء کی داستان ہے، یہی تو عظمت رفتہ کی داستان ہے، یہی تو بیت المقدس کا رعب اور اس کی شان ہے، اس کی بلندی اور سربلندی ہے، اسی میں یہودی عظمت کا احیاء ہے، یہی ہماری نشاة ثانیہ ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں کہیں بھی سفارتی حمایت دنیا بھر سے حاصل کی جاتی رہے گی۔
ہمیں بیت المقدس کو اپنی حقیقی لذت کے بام عروج تک لے جانا ہے۔ یہی ایک یہودی کی معراج ہے۔ جب اسے بلند کرنا اور اسے صہیون سے قریب کرنا ہی واحد عصبیت رہ جائے گی تب ہم یہ سوال کریں گے کہ ہمیں کس قسم کے لیڈر کی ضرورت ہے۔ ہمیں بیت المقدس کے باسی وزیراعظم کی ضرورت ہو گی۔ پھر کیا ہمیں اسرائیل کے وزیراعظم کی ضرورت بھی رہے گی؟
(Ha`aretz- March 192010)
امریکا اور اسرائیل پھر سے ایکـ نیتن یاہو کا تازہ سراب
بنجمن نیتن یاہو کی شخصیت کے بارے میں جاننے کے بعد اس ”پیش رفت” کو سمجھنے میں قارئین کو چنداں مشکل پیش نہیں آئے گی جس کا اظہار اس خبر سے ہو رہا ہے۔ صہیونیت کا یہی انداز پہلے بھی تھا سو اَب بھی ہے
اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اعتماد کی بحالی کے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مغربی کنارے میں امن آ سکے۔ یہ بات وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کو تبائی ہے۔
ٹیلی فون پر نیتن یاہو اور ہیلری کلنٹن میں ہونے والی ملاقات میں اسرائیل کے وزیراعظم نے مبینہ طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایک طویل فہرست کے مطابق فلسطینیوں سے مذاکرات کا عمل پھر سے شروع کرنے کا خواہاں ہے۔
اس ملاقات کے بعد وزیراعظم آفس سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل واقعی ایک ایسی حقیقی کو شش کرنا چاہتا ہے جس سے امریکی حکومت کی مدد کی جائے اور فلسطینی اتھارٹی سے اعتماد سازی کے بارے میں اعلیٰ سطحی بات چیت کی جائے۔ اس مقصد کے لیے اقدامات میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مغربی کنارے سے چیک پوسٹوں کا ہٹایا جانا (خاتمہ نہیں)، اور مغربی کنارے کے علاقوں کا کنٹرول پھر سے ممکنہ طور پر فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا شامل ہیں۔ وزیراعظم آفس سے امریکہ کے مطالبے پر کسی طرح کا ردّعمل نہیں دیا گیا۔ امریکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل کے دورے پر آنے والے امریکی نائب صدر جو بائیڈن کی واپسی تک مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر روک دی جائے۔ اس کا جواب غالباً واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ سے مل سکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے سینیٹر ریوائر جیک سن ڈائیل کے بلاگ پر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے رمات شلومو تعمیراتی منصوبے پر فی الحال کام روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ بات اسرائیل کے ساتھ امریکی سفیر کی گفتگو کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ تاہم اس منصوبے کو منسوخ کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نیتن یاہو سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اوبامہ انتظامیہ پر یہ واضح کریں گے کہ وہ رمات شلومو تعمیراتی منصوبے کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتے کیونکہ اس کی قانونی وجوہات بھی ہیں اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کو بسانے کے لیے ان کا وعدہ بھی یہی تھا۔
اس کے بجائے نیتن یاہو پیشکش کر سکتے ہیں کہ اس بستی کے پڑوس میں نئی بستی کی جلد تعمیر کی بجائے تاخیر کی یقین دہانی کرا دی جائے گی۔ نئی بستی کی تعمیر کو دو یا تین سال کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے تاہم اس کا سنگ بنیاد ضرور رکھا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل یہ وعدہ کر سکتا ہے کہ نئی یہودی بستی بسانے کے لیے بار بار اعلانات نہیں کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ نئے منصوبے کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ بلکہ اس پر یہ ہم آہنگی پیدا کی جائے کہ اس بارے میں پوچھا ہی نہ جائے، کچھ بتایا ہی نہ جائے۔ جب وقت آئے گا تو بستی بنا لی جائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے امریکہ سے یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں بھی مذاکرات کیے جائیں کہ اس نوعیت کے مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے۔ سفیر اورن کا کہنا ہے کہ اس طرح دونوں اطراف کا مقصد یہ ہو گا کہ اس موقع پر اعتراضات کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھے جائیں اور مذاکرات کی طرف جس طرح سے بھی ہو، بڑھا جائے۔
اوبامہ حکومت اور اسرائیل کے درمیان تناؤ میں کمی آ گئی ہے۔ اس کا اظہار امریکی سفیر اورن نے بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ نیتن یاہو حکومت واقعی بہت سنجیدہ ہے اور اس نے ہیلری کلنٹن کے پیغام کو سنجیدگی سے لیا ہے۔
(Ha`aretz- 18 March 2010)
تیری میری اک مرضی…!
مفادات اسرائیلی، متحرک امریکی، ساکت فلسطینی اتھارٹی
واشنگٹن پوسٹ کی 19 مارچ کی رپورٹ گلین کیسلر کے قلم سے
اسرائیل نے امریکا سے اپنے تعلقات میں دَر آنے والی کڑواہٹ کو دور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کو فون کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے وہ اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ امریکہ کے مطالبے پر فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات کے لیے بھی آمادہ ہیں۔
نیتن یاہو کی تجاویز کا فوری طور پر اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم انہیں اوبامہ حکومت نے اتنا کافی قرار دیا ہے کہ وہ اپنے خصوصی نمائندے جارج مچل کو خطے میں دوبارہ بھیجنے پر تیار ہے۔ وہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی میں مذاکرات کی بحالی کا طریقہ کار تیار کریں گے۔ اوباما انتظامیہ نے نیتن یاہو کے خیالات کو حرف بہ حرف قابل قبول قرار نہیں دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اسرائیلی وزیراعظم کے ردّعمل کا انتظار کرے گا اور دونوں فریقوں سے رابطہ رکھے گا تاکہ قربت کے لیے تعلقات کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس کا اعلان امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان پی جے کراؤلی نے ماسکو سے کیا ہے جہاں وہ ہیلری کے ساتھ روس کے دورے پر ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہیلری کلنٹن کی یاہو کو کال کا پیغام صدر اوباما اور ہیلری نے مل کر تیار کیا تھا۔ وہ اس بات پر سخت ناراض تھے کہ اسرائیل نے ان کا یہ مطالبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے دورہ اسرائیل کے موقع پر سولہ سو رہائشی یونٹوں پر مشتمل نئی یہودی بستی کی تعمیر روکنے پر تیار نہیں۔ اس کے جواب میں کہا کہ دورے کی تاریخ کا اعلان درست نہیں تھا۔ انھوںنے کہا کہ یہ ہمارا حق ہے اور ہم ان بستیوں کی تعمیر کے حق سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
نیتن یاہو نے تین دن اپنی داخلی کابینہ سے مذاکرات کیے جس میں سات حکام شامل ہیں۔ وہ یاہو کے حکمران اتحاد کے ساتھی ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں ”کشیدگی” کو ختم کرنے کا حق تلاش کرنا تھا۔ وزیراعظم آفس سے اعلان کیا گیا کہ سات اتحادی اس پر تیار ہیں کہ اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اعتماد بحال کرنے کے لیے فلسطینیوں کو بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔
امریکی حکام کا گزشتہ سال یہ خیال تھا کہ وہ خفیہ طور پر نیتن یاہو سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ مشرقی بیت المقدس میں اشتعال انگیز اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک یقین دہانی یہ تھی کہ اسرائیل فوری طور پر مشرقی بیت المقدس میں مزید کسی نئے تعمیراتی منصوبے کا اعلان نہیں کرے گا۔ اس بارے میں یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ کیا اسے فلسطینی قیادت بھی تسلیم کرے گی یا نہیں۔ یہ قیادت پہلے ہی نئی تعمیرات کو روکنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
اسرائیل نے جو اقدامات تجویز کیے ہیں، ان پر ایک سینئر امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ مطلوبہ تو نہیں کہے جا سکتے تاہم جارج مچل دونوں طرف کی لیڈر شپ سے بات چیت کرنے مشرقِ وسطیٰ جا رہے ہیں۔ نیتن یاہو 22 مارچ کو امریکا میں ہیلری کلنٹن سے ملنے والے ہیں۔ وہاں وہ امریکہ اسرائیل تعلقات کی کمیٹی سے بھی خطاب کریں گے جو امریکا میں اسرائیل کی سب سے مضبوط لابی تصور کی جاتی ہے۔ ایہود باراک بھی وہاں موجود ہوں گے۔ نیتن یاہو کی اوباما سے ملاقات طے شدہ نہیں ہے حالانکہ وہ بھی واشنگٹن میں ہی موجود ہوں گے۔