جمعه 15/نوامبر/2024

مٹتا ہوا اسرائیل

ہفتہ 10-مئی-2008

سابق امریکی صدر جمی کارٹر ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے دن رات ایک کردیا ( گوکہ انہیں یہودیوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملی )مگر وہ بھی وہاں سے یہودیوں کے بڑھتے ہوئے انخلا کو روک نہیں سکے –
ریاست اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں مجموعی طور پر 5.4ملین یہودی اور 4.6ملین فلسطینی آباد ہیں- فلسطینیوں کی شرح پیدائش اسرائیلی یہودیوں کی شرح پیدائش سے تین گنا زائد ہے- یہودیوں میں ایسے افراد کا تیزی سے اضافہ ہو رہاہے جو اس سوچ کے حامی ہیں کہ اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں- اپنے تاریک مستقبل کو روشن کرنے کی خاطر بڑی تعداد میں لوگ اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ممالک میں آباد ہوتے جا رہے ہیں- دوراندیش سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن سے جب پیٹرک بکاٹن اور ان کی اہلیہ نے پوچھا تھاکہ اسرائیل کا مستقبل کیسا ہوگا؟ انہوں نے اپنے انگوٹھے کا رخ زمین کی طرف کرتے ہوئے کہاتھا ’’گلیڈ ایٹر کے عہد کی رومن سلطنت جیسا ‘‘گویا ہم ایک ایسے اسرائیل کو دیکھ رہے ہیں جو اپنے انتہا کی جانب مسلسل بڑھ رہاہے-
یہودی ریاست کے قیام کی خاطر 1897ء میں جب ویانا کے یہودی علماء ( ربی) کا ایک وفد حقائق جاننے کے لئے سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے واپس پہنچا تو اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا’’دلہن تو بڑی خوبصورت ہے مگر کسی دوسرے شخص سے بیاہی ہوئی ہے-
‘‘واضح رہے کہ وفد کا مقصد یہ جانناتھاکہ یہ سرزمین اسرائیل کے قیام کے لیے موزوں تھی یا نہیں- اس وفد کو دورہ فلسطین کی تحریک دینے والا ’’یہودی ریاست‘‘ جیسی موثر کتاب ہی اس تحریک کا باعث بنی جسے تاریخ نے ’’سیاسی صہیونیت‘‘کا نام دیاتھا- ہرزل ایک وسیع النظر شخص تھا،اس کے خیال میں یہودیوں کی ریاست ارجنٹائن میں بسانی چاہیے تھی- کیونکہ انیسویں صدی میں وہاں یہودی آبادکاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی- یہاں وہ یورپ میں چلنے والی یہود مخالف لہر سے بھی محفوظ رہتے- وہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے سیکرٹری جوزف چیمبرلین کی جانب سے تاج برطانیہ کے زیر اثر مشرقی افریقہ کے شہر نیروبی کے قریب یہودی ریاست بنانے کی پیشکش کو قبول کرنے پر بھی مائل تھا مگر صہیونی کانفرنس نے یہ دونوں تجاویز رد کردیں، جب برطانوی حکومت مکمل طور پر یہودی لابی کے زیر دام  گئی اور 1917ء کی بالفورڈ ڈیلکریشن میں کہاگیا ’’فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست یعنی ان کا اپنا ملک بنانا چاہیے‘‘- مگر برطانوی کابینہ کے واحد یہودی وزیر ایڈن سیموئیل مونیٹگ نے یہ کہہ کر اس سارے منصوبے کی مخالفت کی کہ ’’یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بابل کے باغات کو دوبارہ تعمیر کرنا- ‘‘اس نے مزید کہاکہ فلسطین دنیا کا ایک اقلیتی علاقہ بن کر رہ جائے گا-‘‘صرف یہی نہیں بلکہ برصغیر کے سابق وائسرائے لارڈ کرزن بھی اس فیصلہ پر بے اختیار پکار اٹھے تھے کہ ’’برطانیہ تو فرانس کے مختلف علاقوں پر اپنا حق جمانے کا مضبوط دعویدار ہوسکتاہے مگر دو ہزار سال تک فلسطین سے باہر رہنے والے یہودیوں کو اس پر ملکیت کا حق نہیں دیا جاسکتا -‘‘لارڈ کرزن نے معاہدہ بالفور کو جذباتی اور زمینی حقائق سے برعکس فیصلہ قرار دیاتھا-
ہمارے ہاں عموماً سیاسی امور پر بالغ نظری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے والوں کو زیادہ انعام و اکرام سے نہیں نوازا جاتا- یہ بات واضح ہے کہ یہودیوں کو بھی اپنی مستقل ریاست کے قیام کے لئے لوہے کے چنے چبانا ہوں گے- حتی کہ انہیں اپنی تباہی کا بھی سامنا کرنا ہوگا- اسرائیلی تو اسے  تا دیکھ رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ تباہی  اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ ہیں- گزشتہ برس نومبر میں اپنے ایک انٹرویو میں ایہوداولمرٹ نے کہاتھا کہ ’’اگر وہ دن  گیا جب دو ریاستوں کا نظریہ ملیا میٹ ہوجاتاہے اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مساویانہ حق رائے دہی کی جدوجہد کرنی پڑ جائے تو سمجھ لیں وہ ریاست اسرائیل کا  خری دن ہوگا-‘‘
اگر اولمرٹ کی کہی بات سچ ہوجائے تو یقیناً صہیونیو ں کے لئے انتہائی تکلیف دہ بات ہوگی- مگر یہاں اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے یہودیوں کی فہرستیں مرتب کی جائیں جو تشدد سے پاک ماحول چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لئے باعزت طریقے سے روزی روٹی کما سکیں- بد قمستی سے حالات و واقعات زمینی حقائق سے ماورا غلط سمت میں رواں دواں ہیں- اب اگر کوئی بیرونی دنیا سے اسرائیلیوں کی فلاح کے لئے کچھ کرنا چاہتاہے  تو اسے دوریاستوں کے قیام کی حمایت ترک کرکے اسرائیلیوں کو فلسطینیوں کے ساتھ مل کر رہنے کا مشورہ دینا چاہیے کیونکہ اگرجنوبی افریقہ میں کالے اور گورے مل کر رہ سکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں؟اگر اسرائیلی اس پر راضی ہوجائیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ فلسطینی ایک خوشحال سرمایہ دارانہ معیشت اور ہمسائیوں سے پر امن بقائے باہمی کے خواہاں ہیں-
اب یہودیوں کو سمندر میں توڈبویا نہیں جاسکتا مگر وہ جو یورپ، امریکہ حتی کہ روس میں بھی جا بسنے کے خواہاں ہیں،انہیں وہاں کھلے دل سے خوش  مدید کہناچاہیے- ماضی میں یہود مخالف تحریکوں کے مراکز جرمنی اور روس یہودیوں کے خوف سے نجات پا چکے ہیں- زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں ہے- درست کہ کچھ مشکلات ابھی حل طلب ہیں، جن میں نسلی بنیادوں پر انسانوں کو الگ تھلگ کرنا بھی شامل ہے مگر جلد یا بدیر یہ بھی حل ہوجائیں گی- یہودیوں کو وقت کا پہیہ الٹا گھومنے کاانتظار نہیں کرنا چاہیے- انہیں صرف یہ کرنا چاہیے کہ وہ معاہدہ بالفور میں ان الفاظ کا اضافہ کریں ’’کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس سے علاقہ میں بسنے والے غیر یہویدوں کا حق مارا جاتا ہو-‘‘ معاہدہ میں ان الفاظ کو شامل کئے بغیر فلسطین میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا-

لینک کوتاه:

کپی شد