جمعه 15/نوامبر/2024

مبارک، حسنی مبارک

اتوار 27-جنوری-2008

مصر کے صدر حسنی مبارک نے اسرائیلی ظلم کا شکاربے سہارا،  مظلوم اور گئی ماہ کے بھوکے فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دے کر قابل تحسین اقدام کیا ہے،  اسرائیل اور امریکہ کی پوری سازش تھی کہ بھوک سے تنگ آ کر فلسطینی آخر کار ان کے دروازے پر دستک دیں گے اور کہیں گے کہ ان سے غلطی سرزد ہوگئی ہے اب ان کو معاف کیا جائے اور ان کے لیے روٹی  کے دوٹکڑے عنایت کیے جائیں،  مگر قابل صد مبارک مباد کے مستحق ہیں وہ لٹے پھٹے فلسطینی جنھوں نے کہا کہ وہ بھوک سے مرجائیں گئے مگر کسی کے دروازے پر نہیں جائیں گے-
مصر اسلامی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا،  اس کی سزا کے طورمصر کو او آئی سی سے نکال دیا گیا تھا،  مگر حقیقت یہ ہے کہ مصر نے دل سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیااور نہ ہی اسرائیل نے دل سے مصر کو تسلیم کیا ہے،  اس کا ادراک مجھے اس وقت بھی ہو ا جب پاکستان کے( مرحوم )سابق وفاقی وزیر قانون اقبال احمد خان سے ملاقات ہوئی تو انھوں کی کچھ باتیں آن دی ریکارڈ تھیں اورکچھ آف دی ریکارڈ تھیں،  انھوں نے حسنی مبارک سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی غلطی کیوں کی؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ہم اس انتظار میں ہیں کے طاقت حاصل کریں اور اسرائیل کامقابلہ کریں،   اس وقت ہم کمزور تھے اور مقابلے کی پوزیشن میں نہیں تھے ایسے وقت میں اپنے سے بڑی طاقت کو للکارنا عقل مندی نہیں ہے عقل مندی یہ ہے وقت حاصل کرکے طاقت حاصل کی جائے اور پھر اس کا مقابلہ کیا کائے-
حسنی مبارک کے ان دلائل کی تصدیق بھی کافی حد تک ان کے عوام کی رائے سے ہوتی ہے،  مصر میں آج تک کوئی فلم ہٹ نہیں ہوئی جس میں اسرائیل کے خلاف بھر پور کردار موجود نہ ہوں،  چند سال قبل جب اسرائیل آرمی نے ایک فلسطینی بچے محمد الدرہ کو شہید کیا تھا تو مصری حکومت نے اس گلی کا نام محمد الدرہ کے نام سے رکھ لیا تھا جہاں اسرائیلی سفیر رہتا تھا،  یہ صرف سفیر کو تنگ کرنے اور مصری عوام کے جذبات اس تک پہنچانے کے لیے مصر نے ایساکیا تھا،  اس سی طرح کی گئی اور کارروائیاں بھی مصر نے کی جس سے ظاہر ہوتا ہے ہے کہ مصر نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا-چند ہفتے قبل ایام حج کے موقع پر اسرائیل نے فلسطینیوں پر پابندی لگادی کہ وہ حج کے لیے سفر نہیں کرسکتے،  مگر مصر نے ہزاروں افراد کو حج پر جانے کے لیے اپنی سرحد کھول دی تھی،  جس پر اسرائیل نے کافی بھرمی کا اظہار کیاتھا،  مگر اسرائیل کو امیدتھی کہ جب یہ حاجی واپس آئیں گے تو مصر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرے گا اور ان حاجیوں کو اسرائیل کے حوالے کردے گا-جب فلسطینی حج سے واپس آئے تو سرحد پر حالات کشیدہ تھے، اسرائیل نے مصر سے کہا کہ وہ ان حاجیوں کو رفح سے گزرنے کی بجائے ان کو اسرائیلی سرحد سے گزرنے کے لیے مجبور کرے اسرائیل ان تمام حاجیوں کو گرفتار کرنا چاہتا تھا-
مصر نے تمام تر دباو کے باوجود ان حاجیوں کو رفح سے گزرنے دیا جس پر اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود بارک نے تمام سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہا کہ حسنی مبارک پاگل ہوچکا ہے، اس بڈھے کی عقل جاچکی ہے اور اس کی اپنی سیکورٹی فورسز اس کے احکامات ماننے سے انکاری ہیں-
مصر نے یکے بعد دیگرے اقدامات کرکے اپنے تمام سابق گناہوں کا کفارا ادا کردیا ہے، چونکہ جب محمود عباس نے امریکہ اور اسرائیل کے کہنے پر فلسطین کی منتخب جمہوری حکومت ختم کردی تھی تو حماس نے غزہ پر قبضہ کر لیا تھا تو اسرائیل نے مصر سے کہا کہ وہ حماس کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہ رکھے مگر مصر نے حماس کے ساتھ رابطے رکھے بلکہ فتح کو کہا کہ وہ حماس کے ساتھ مل کر چلے، فتح اور حماس کے درمیان قاہرہ میں ایک معاہد ہ بھی ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ حماس اور فتح مل کر حکومت بنائیں گی –
اب چونکہ ہزاروں فلسطینی غربت سے تنگ آکر مصر ہجرت کر گئے ہیں اسرائیل اپنی خفت مٹانے اور مصر میں حالات خراب کرنے کے لیے کارروائیاں کرکے فلسطینیوں کے کھاتے میں ڈال دے گا، جس سے فلسطینیوں اور مصریوں کے درمیان تعلقات خراب ہوسکتے ہیں، مصری حکومت اور سکیورٹی اداروں کو اسرائیل پر خصوصی نظر رکھنی ہوگی ذرا سی غفلت بھی کام دیکھا سکتی ہے، مصر کی داخلی سلامتی کے لیے ضرروی ہے کہ حالات پر نگاہ رکھی جائے-چونکہ اسرائیلی مصر میں رہے ہیں وہ یہاں کے عوام کا مزاج اور وہاں کیسے کام کیا جائے یہ سب جانتا ہے اس لیے ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے-
غزہ کے انسانی المیے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عرب ممالک کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کو امریکہ نے ایک بار پھر مستر د کرتے ہوئے اپنی جانبداری کا واضع ثبوت دیا ہے، امریکہ ہی کی شہ پر اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے، قوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15ارکان میں سے صرف امریکہ نے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے، باقی 14ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی، امریکہ کی وجہ سے قرارداد منظور نہ ہوسکی-
شام نے کھل کر امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مظلوموں کوظالم اور ظالموں کو مظلوم بنا کر پیش کررہا ہے جس سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں، امریکہ ظالم کو ظالم کہے تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے-
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے نے اہل غزہ کی حمایت میں قرارداد پاس کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کا ضمیر ابھی تک مکمل بطور پر مردہ نہیں ہوا ہے -ساری دنیا اسرائیل کے اس قدام کو ظالمانہ کہہ رہی ہے مگر امریکہ ہے کہ اسرائیل کی حمایت کیے جارہا ہے، وہ اسرائیل کے تمام جرائم پر پردہ ڈال رہا ہے اور اسرائیل امریکہ کی شہ پر فلسطینیوں کا قتل عام کیے جارہا ہے-
اسلامی ممالک نے سلامتی کونسل میں اپنا حال دیکھ لیا ہے امریکہ کی موجودگی میں اقوام متحدہ مردہ گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی اس ادارے سے مسلمانوں کے لیے خیر کی کوئی امید پیدا ہوسکتی ہے، چونکہ یہ ادارہ مکمل طور پر امریکہ کے زیر سایا جا چکاہے-اسلامی ممالک او آئی سی کی سطح پر اپنے فیصلے خود کریں، او آئی سی میں فیصلہ کیا جائے کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ فلسطین پر جبرا ً قبضہ قائم رکھے اور نہ صرف قبضہ رکھے بلکہ وہاں کے فلسطینی مسلمانوں کو بھوک سے مرنے کی سازش کرے، غزہ کے ساتھ جن ممالک کی سرحد لگتی ہے وہ فوری طور پر اپنی سرحدیں کھول دیں اور دیگر ممالک بھی امداد دیں تاکہ غزہ میں انسانی المیے کو رونما ہونے سے بچایا جائے-اسلامی ممالک اس مرحلے پر کمزوری کا مظاہر ہ نہ کریں پوری دنیاسو ائے چند یہودیوں کے وظیفہ خواروں کے غزہ والوں کے ساتھ ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح نازیوں جیسا سلوک فلسطینیوں کے ساتھ روارکھ رہاہے، اس وقت ساری دنیا میں اہل غزہ کی حمایت میں مظاہر ے ہورہے ہیں، ہر انسان پریشان ہے، شدید سردی میں عوام کا بجلی اور پانی بند کرنا انسانیت کے درجے والے کام نہیں ہیں-
اسرائیل کو ان جرائم سے روکنے اور اس کو فلسطین اور لقدس خالی کرانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ مکمل بائیکاٹ کریں، جن ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں وہ فوری طور رپر ان کو ختم کرنے کا علان کریں،  تمام اسلامی ممالک امریکہ پر بھی واضع کریں کہ اس نے صرف اسرائیل کا ساتھ دینا ہے یا 56اسلامی ممالک کے ساتھ چلنا ہے،  جس طرح امریکہ نے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے ساتھ ہو اسی طرح مسلمانوں کو بھی امریکہ سے کہنا چاہیے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہے یا اسلامی ممالک کے ساتھ ہے،  تب جاکر امریکہ اسرائیل کا ناجائز ساتھ چھوڑے گا جب امریکہ اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دے گا تو فلسطین آزاد ہوجائے گا-

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از راجہ ذاکر خان