اقوام متحدہ دنیا بھر میں مختلف اداروں کے ذریعہ مختلف اور متنوع کام کرنے، خدمات سرانجام دینے کا دعویٰ رکھتی ہے۔ ان میں یونیسیف، یونیسکو جیسے پلیٹ فارم بھی ہیں اور جنگ سے تباہ حال علاقوں میں امن قائم رکھنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی [اونروا] انہی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے۔ یہ ادارہ اپنے متعین مقاصد کے مطابق مہاجرین فلسطین کی رجسٹرڈ تعداد کی متفرق طور پر امداد کرتا ہے۔ فلسطینیوں کو اب اسرائیل کے قبضے اور فلسطینی علاقوں پر تواتر سے حملوں، مقبوضہ فلسطین کے آبادی پر ناروا اقدامات، فلسطینی کیمپوں پر مسلسل حملوں کا بھی سامنا رہتا ہے
اونروا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان اقدامات اور مظالم کے شکار ان فلسطینیوں کی مدد کرے جو رجسٹرڈ مہاجر کہلاتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسرائیل جن ممالک کی مدد سے ان بے گناہ فلسطینیوں پر حملے کرتا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے، غزہ اور دیگر کیمپوں کو نشانہ بناتا ہے اور اونروا انہی ملکوں کے اجتماعی سرمائے سے اپنے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔ گویا ایک ہاتھ سے زخم دیا جاتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے مرہم کا ہلکا پھلکا تاثر دیتا ہے۔
اونروا کا مقصد سیاسی و قانونی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنا نہیں تھا لیکن 1949ء میں اپنے قیام کے بعد سے یہ کردار بڑھتا ہی گیا ہے۔ اب اس کا مینڈیٹ بڑی حدتک انہی کاموں تک محدود کردیا گیا ہے۔ اس کی فلسطینیوں کی داد رسی اور امداد کا کردار کم ہوتا جارہا ہے۔
فلسطین کو مئی 1948ء میں اسرائیل میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ رہی سہی کسر 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ نے پوری کر دی تھی۔ اس دن فلسطین پر توڑے گئے مظالم ایک الگ داستان کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی دن لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے ہی نہیں بل کہ اپنے وطن سے بھی محروم کردیے گئے تھے۔ اب اسرائیل ان مہاجر بنائے جانے والے فلسطینیوں کے اپنے گھروں اور وطن کو واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے عملی طور پر انکار کرتا ہے۔ یاد رہے کہ 11 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 194 کے تحت ان مہاجر بنائے جانے والے فلسطینیوں کے حق واپسی کو تسلیم کیا تھا۔
ایک اور قرارداد 302(IV) منظور کی گئی۔ یہ قرارداد 8 دسمبر 1949ء کو منظور کی گئی۔ اس کے تحت یہ اونروا ایجنسی وجود میں لائی گئی۔ اس کا کام یہ طے پایا تھا کہ یہ ایجنسی فلسطینی مہاجرین کو سپورٹ اور تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی بنیادوں پر فلسطینی مہاجرین کا خیال رکھے گی۔
اس ایجنسی کو طے شدہ اہداف اور مقاصد پورے کی کرنے کی آزادانہ فضا اور ماحول کبھی بھی میسر نہیں آسکا۔ بین الاقوامی برادری نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا کہ فلسطینی ضرور اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے لیکن اسرائیل کی ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ عالمی قوتوں کے متفرق رویوں نے اس عزم کو پورا ہونے نہیں دیا۔
1948ء میں جب یہ بحران شروع ہوا تو اپنے وطن سے نکالے گئے فلسطینیوں کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ وہ تعداد ہے جو اس ایجنسی کے پاس رجسٹرڈ فلسطینیوں کی ہے۔ ان کو ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت مہاجر کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب یہ تعداد 50 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے، اس میں ہر روز اضافہ بھی ہورہا ہے۔
جن بحرانوں سے یہ ایجنسی گزری ہے، اس میں ایک نئے اور زیادہ تشویش ناک بحران کی خبر فلسطینی نیشنل کونسل کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ صالح ناصر نے 24 اپریل کو اس سال دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ایجنسی کو حاصل مینڈیٹ کے خاتمے کے امکانات سامنے آرہے ہیں۔ اس خبر کی بنیاد ان کے مطاب یو این کے کمشنر جنرل نے دی ہے۔
یو این کمشنر جنرل کا اس سلسلے میں بیان 23 اپریل کو سامنے آیا۔ انہوں نے۔ اس امر کا اعتراف کیا کہ اس ایجنسی کو طے شدہ اہداف اور مقاصد کے مطابق زیادہ مدت تک چلایا نہیں جاسکتا۔ اس طرح پہلے سے مسائل سے دوچار اس ایجنسی کے کام، اس کی کوالٹی اور تسلسل کو برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اس کو فنڈز دینے والے ممالک اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اسی طرح سے اس ایجنسی کے کام کے نہایت محدود تر ہوتے جانے سے فلسطینیوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس وقت یہ ایجنسی فلسطینی مہاجرین کے بچوں کی تعلیم، عمومی صحت اور 56 لاکھ فلسطینی مہاجرین کو مختلف طرح کی سپورٹ دے رہی ہے۔ یہ فلسطینی اردن، لبنان، شام کے ساتھ غزہ اور مغربی کنارے میں کام کر رہی ہے۔ ان کی ایک تعداد مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں بھی موجود ہے۔
اس ایجنسی سے وابستہ سیاسی مسائل کو بھی حل کرنے کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جون 2018ء میں سابق امریکی صدر ٹرپ کے مشیر جیرڑ کشنر نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق انہوں نے اردن کے شاہ عبد اللہ سے مطالبہ کیا تھا کہ اردن میں رہنے والے 20 لاکھ فلسطینیوں کا ’’مہاجر سٹیٹس‘‘ ختم کردیا جائے۔ دیگر کوششوں کی طرح امریکہ کی یہ کوشش ناکام ہوگئی تھی۔
7 اپریل 2021ء کو امریکی صدر جوبائیڈن کے اس اعلان کا فلسطینیوں نے خیر مقدم کیا تھا کہ امریکہ اونروا کی مالی امداد جاری رکھے گا لیکن اس اقدام کے حقیقی مقاصد خفیہ رکھے گئے تھے۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ امریکہ نے اس فنڈنگ کو جاری رکھنے کو مشروط طور پر تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ اونروا کو ایک فریم ورک پر دستخط کرنا ہوں گے۔ اس منصوبے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اونروا کو اسرائیل میں امریکی مقاصد پورے کرنا ہوں گے۔ اسرائیل نے مشروط طور پر کہا تھا کہ یہ ایجنسی صرف ان فلسطینیوں کو امداد فراہم کرے گی جنہوں نے کبھی بھی فوجی تربیت حاصل نہ کی ہوگی۔ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں رہے ہوں گے۔ وہ کبھی فلسطینی لبریشن آرمی کے لیے کام نہ کرتے رہے ہوں گے۔ ایک اور اہم کام یہ بتایا گیا کہ ایجنسی فلسطینی نصاب تعلیم پر کڑی نگاہ رکھے گی۔
اس معاہدے سے یہ ایجنسی انسانی بنیادوں پر کام سے زیادہ ایک سیکیورٹی ایجنسی میں تبدیل ہوگئی جس کا اہم مقصد اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنا رہ گیا۔ فلسطینی احتجاج بے سود رہا۔ ان شرائط کو پوری ممالک نے بھی من و عن تسلیم کرلیا۔ گزشتہ سال ستمبر میں یورپی پارلیمنٹ نے ان میں ایک ترمیم کردی۔ اس کے ذریعے اس ایجنسی کے پورے کردار کو تبدیل کردیا گیا ہے۔
یہ درست ہے کہ یہ ایجنسی کبھی بھی طے شدہ مقاصد کے حوالے سے مثالی ادارہ نہیں رہا۔ اب یہ اسرائیل، امریکہ اور مغربی مفادات کی ایجنسی بن گئی ہے جس کا فلسطینی مہاجرین سے کوئی تعلق حقیقی طور پر نہیں رہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے اس تبدیلی پر احتجاج ضرور کیا ہے۔ عرب حکومتوں کا احتجاج بھی سامنے آیا ہے، تاہم تبدیل شدہ اونروا کو اس کے طے شدہ مقاصد کے تحت کردار ادا کرنے پر اب کوئی بھی آمادہ یا مجبور نہیں کرسکتا۔