تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غزہ میں سیزفائر ہو چکا ہے‘ لیکن اس سے چند روز قبل تک اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام جاری تھا۔ گزشتہ چند دنوں میں اسرائیل کے ہوائی اور راکٹ حملوں میں 14 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی یہ کارروائی نئی نہیں، بلکہ 2005ء میں جب غزہ میں فلسطینی عوام کی تحریک مزاحمت کے نتیجے میں اسرائیل کو غزہ سے نکلنا پڑا، اُس وقت سے لے کر اب تک غزہ کے شہری، جن میں کثیر تعداد بچوں کی ہے، اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔
2008ء میں اسرائیل کی اسی قسم کی بربریت میں غزہ کا علاقہ، فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان 22دن تک میدانِ جنگ بنا رہا تھا۔ اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی میں ہوائی حملوں کے علاوہ، پیدل فوج‘ ٹینک اور دُور مار توپیں بھی استعمال کیں۔ اس طویل جنگ میں فلسطینیوں کو اپنی املاک کے علاوہ وسیع جانی نقصان بھی اُٹھانا پڑا۔ 1200 کے قریب فلسطینی شہید ہوئے اور 13اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے۔ فریقین کے درمیان جنگ بندی تو ہو گئی لیکن امن قائم نہیں ہو سکا۔ آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہوتا ہے کیوں کہ اُن کے پاس اسرائیل کی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جھڑپوں کا سلسلہ اگرچہ غزہ تک محدود ہے لیکن کبھی کبھی دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کے گھروں کو اسرائیل کی طرف سے مسمار کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے تو اس کے خلاف احتجاج میں بھی فلسطینیوں ہی کا خون بہتا ہے۔ فلسطین میں اس خونریزی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اس کی بنیاد 1948ء میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کی یہودی ریاست کے قیام کے وقت پڑی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس تنازعہ کی بنیاد اقوام متحدہ نے رکھی تھی کیوں کہ فلسطین، جس کی 1948ء میں آبادی کا دوتہائی سے زائد حصہ عربوں پر مشتمل تھا، کی تقسیم اور اسرائیل کا قیام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد یہودیوں کے لئے ایک ریاست کی تشکیل تھی لیکن ایسا کرتے وقت فلسطین کے عرب باشندوں، جو کہ 1400سال سے اسی سرزمین کے باشندے چلے آ رہے ہیں، کے مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو آباد کرنے کیلئے اقوام متحدہ نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا اور وہ ابھی تک اپنے وطن اور گھر بار سے دُور ہمسایہ عرب ممالک میں مہاجرین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ جو فلسطینی غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد ہیں، انہیں آئے دن اسرائیل کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل نے جون 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ 1948ء کے برعکس 1967ء میں مغربی کنارے اور غزہ میں آباد فلسطینی باشندوں نے اپنے گھر بار چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسرائیل نے انہیں مختلف طریقوں سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی‘ مگر غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی باشندوں نے اسرائیل کے ہر اقدام کے خلاف مزاحمت کی اور اس کی پاداش میں بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کیا۔ غزہ 1967ء کی جنگ سے پہلے مصر کا حصہ اور اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا بہت بڑا مرکز تھا، کیوں کہ 1948ء میں یہودی فوج نے جن فلسطینیوں کو زبردستی اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا‘ اُن کی ایک بڑی تعداد یہاں آ کر آباد ہو گئی تھی ‘اور اپنے وطن کو یہودیوں کے قبضے سے چھڑانے کیلئے غزہ کے فلسطینیوں نے باقاعدہ تحریک شروع کر دی تھی۔
1967ء میں جب مصر، شام اور اسرائیل کے درمیان تیسری جنگ چھڑ گئی، تو اسرائیلی فوجوں نے غزہ کی پٹی پر فوراً قبضہ کر لیا، اور فلسطینی تحریک مزاحمت کو کچلنے کیلئے اسرائیل نے جگہ جگہ فوجی چوکیاں اور اڈے قائم کیے جن پر اسرائیلی فوجی اپنے تمام تر ہتھیاروں کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ فلسطینی تحریک مزاحمت کو کچلنے کیلئے اسرائیل نے فلسطینیوں کو جیلوںمیں ڈالنے اور دیگر کئی قسم کے ظالمانہ اقدام کرنے کی پالیسی اختیار کی، مگر اسرائیلی قبضے کے باوجود غزہ میں فلسطینی جدوجہدِ آزادی ختم نہ ہو سکی۔ اسرائیلی فوجیوں اور یہودی بستیوں پر فلسطینی مجاہدین کے حملے جاری رہے۔ اسرائیل نے ان حملوں کو روکنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ تنگ آ کر 38سال کے قبضہ کے بعد 2005ء میں آخر کار اسرائیل کو غزہ سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ لیکن غزہ سے انخلاء کے باوجودمعاملات اور حالات ٹھیک نہ ہو سکے، کیونکہ غزہ میں حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا تھا۔
حماس سے پہلے غزہ میں یاسر عرفات کی تنظیم الفتح کو غلبہ حاصل تھا، مگر غزہ کے عوام کی اکثریت نے 2006ء میں حماس کے ہاتھ قیادت سونپ دی۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ جس کا نمایاں پہلو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان خوں ریز جھڑپیں ہیں۔ خوں ریزی کے اس نہ رکنے والے سلسلے کی سب سے بڑی وجہ، عرب اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ اسرائیل اس قبضے کو ختم کرنے پر تیار نہیں‘ اور فلسطینیوں کی جانب سے جب اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے تو اُنہیں اسرائیل کے فوجیوں کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ‘ جس نے فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کے قیام کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور فساد کا بیج بویا تھا، اب امن کے قیام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے تیار نہیں۔ حالیہ جھڑپوں نے جب شدت اختیار کی اور فلسطینیوں کا جانی نقصان بڑھنے لگا، تو فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائی کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ اٹھایا، مگر امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے سلامتی کونسل اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام نہ کر سکی، جس کے بعد صدر محمود عباس کو کہنا پڑا کہ فلسطین کے مسئلے پر اقوام متحدہ کا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے اس بنیادی فریضے کو ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو فلسطینی انصاف کے لئے کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں؟
اس سوال سے ذہن میں فوراً اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی (OIC) کا خیال آتا ہے لیکن اس تنظیم کے سابق ریکارڈ کی روشنی میں اس سے کوئی بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ یہ تنظیم ایران اور عراق کے درمیان جنگ بند نہ کرا سکی۔ افغانستان کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ شام کا بحران جاری ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم ممالک بلکہ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک بھی فلسطینیوں کی مدد کیلئے تیار نہیں۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی اتحاد اور ایک مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کے کیا معنی ہیں؟ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے خود عرب ممالک کی بے اعتنائی کی صورت یہ ہے کہ ایک طرف غزہ میں فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف بعض عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور قریبی تعاون قائم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک برادر مسلم ملک ایران کے خلاف کارروائیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جب تک مسلم ممالک میں اس دوغلی اور منافقانہ پالیسی کا خاتمہ نہیں ہوتا، اسرائیل پوری آزادی کے ساتھ فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری رکھے گا۔ فلسطینیوں کو انصاف دلانے کیلئے مسلم ممالک کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔