جمعه 15/نوامبر/2024

غزہ جنگ کے 200 دن: کیا کھویا، کیا پایا؟

پیر 29-اپریل-2024

طوفان الاقصیٰ کے 200 دن مکمل ہونے کے ناطے لمحہ موجود قابض صہیونیوں کے ساتھ تنازعے کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔

سات اکتوبر کی کارروائی کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے صہیونی دشمن یہ کہنے پر مجبور ہے کہ طوفان الاقصیٰ  نے اسرائیلی سلامتی کے نظریے کی بنیادوں پر کاری وار کیا جس سے سد جارحیت کا بت پاش؛ پیشگی اطلاع سے متعلق اسرائیلی نظام بری طرح ناکام  اور سب سے بڑھ کر جنگ کے آغاز پر قیمتی وقت ضائع کرنے کے بعد اسرائیلی دفاع کو ہوش آیا۔

مٹھی بھر لوگوں کی ملی بھگت، اغماض، ناکامی اور امریکی آشیر باد کے علی الرغم صہیونی مجرم فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم اس کے باوجود قابض دشمن اب تک اس لڑائی کا فیصلہ اپنے حق میں کرانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔

افق پر تاحد نظر کوئی معاہدہ دکھائی نہیں دیتا۔ قابض صہیونی رفح کے خلاف نئی جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دشمن فوج یہ دعوی کرتے نہیں تھکتی کہ غزہ کی پٹی میں رفح اکلوتا ایسا علاقہ بچا ہے جہاں اب تک صہیونی فوج داخل ہو کر تباہی پھیلانے سے گریز کر رہی ہے۔

محاذ جنگ کی صورت حال

 

جارحانہ حربوں اور دفاعی حکمت عملی سے عبارت کَرّ و فَر کو بروئے کار لاتے ہوئے مزاحمت کار قابض فوج کے ساتھ تمام محاذوں پر نبرد آزما ہیں۔ مزاحمت کار میدان جنگ اور لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی ہوئی سکیورٹی کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

مزاحمت کاروں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ان کی طاقت اللہ عز و جل کی ذات، عوامی امنگوں اور اہالیان غزہ کی بے پایاں محبت کی مرہون منت ہے۔

مزاحمت کاروں کی صلاحیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ غزہ کی سرزمین پر  مدت مدید سے ایسی مدبھڑ کا سامنا کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ غزہ کی سرزمین پر موجود مزاحمت کار عوام کے تحفظ کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ صہیونی دشمن مزاحمت کے پرچموں، ہتھیاروں، امنگوں اور ثابت قدمی کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔

اللہ پر مضبوط ایمان، راسخ عقیدے اور آزادی کے عزم صمیم کے تناظر میں ملنے والی عظیم الشان عوامی حمایت ہی دراصل یہ عالمی جنگ لڑنے والے مزاحمت کاروں کا زاد راہ ہے۔

غزہ جنگ سے متعلق دشمن اپنے تمام علانیہ مقاصد کے حصول میں ناکام چلا آ رہا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کے خاتمے سمیت اہالیاں غزہ کے پایہ ثبات میں لغزش پیدا کرنے کے لیے دشمن کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ بلکہ معاملات اس کے برعکس ہیں، مزاحمت کی بابرکت روح اب غرب اردن میں بھی بیدار ہونے لگی ہے۔

یہاں معاملات صہیونی دشمن کے لیے اور بھی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ مجرم نیتن یاہو سمجھتا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے بغیر جنگ روکنا حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست فاش ہو گی۔ سچ تو یہ ہے کہ فلسطینی قوم سات اکتوبر کے دن فتح یاب اور دشمن شکست فاش سے دوچار ہو چکا ہے۔

اسرائیل سے شائع ہونے والے عبرانی اخبار یدیعوت احرنوت کی رپورٹ کے مطابق ’’اسرائیلی ملڑی انٹلیجنس کا سربراہ سات اکتوبر حملہ روکنے میں ناکامی اور [شام میں] ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے تناظر میں استعفیٰ کے لیے پرتول رہا ہے۔ آغاز جنگ کے بعد سے یہ پہلا استعفیٰ ہے۔ اسے قبل امان ڈویژن کے سربراہ، چیف آف آرمی سٹاف، نادرن کمانڈ کے سربراہ، داخلی سلامتی کے نگران ادارے ’’شاباک‘‘ کے چیف سمیت نادرن کمانڈ سے وابستہ کئی ٹیکنکل اور مخصوص مہارتوں میں طاق یونٹس کے نگران سات اکتوبر کو غزہ کے انتہائی محفوظ سکیورٹی غلاف میں موجود یہودی بستیوں اور فوجی یونٹس کے تحفظ میں ناکامی کا سرکاری طور پر اعتراف کر چکے ہیں۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے پانچویں باب کی روشنی میں پانچ ماہ قبل مذکورہ تمام افسران اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونے کی خواہش کا برملا اظہار کر چکے تھے۔

غزہ میں انسانی صورتحال

 

ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق مجرم ’اسرائیلی‘ فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی پر مسلط جنگ میں مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانے پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اسرائیل ’زندگی اور موت کے فیصلے‘ الگروتھم کے ذریعے ہونے والے حساب کتاب کی روشنی میں کرنے لگا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ میں بمباری کے لئے اہداف کے چناؤ میں مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اپنی قرارداد میں ’’غزہ کے کثیف آبادی والے علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دھماکہ خیز اسلحہ‘‘ اور آپریشنل کارروائیوں سے متعلق فیصلوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ ایسی کارروائی کے ذریعے اسرائیل عالمی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

لوکل کال اور +972 میگزین نامی ویب گاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی خفیہ اداروں کے اہلکار غزہ میں بمباری کے لئے اہداف کے چناؤ میں ’’لیونڈر‘‘ نامی پروگرام سے مدد لے رہے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے کسی قابل بھروسہ انسانی معاونت کے بغیر مصنوعی ذہانت ٹکنالوجی استعمال کرتے ہوئے غزہ کے ہزاروں باسیوں کی مشتبہ افراد کے طور پر درجہ بندی کر رکھی ہے۔

مبینہ طور پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے لیونڈر نامی پروگرام میں 37 ہزار فلسطینیوں اور ان کے مکانات کو [اسرائیلی] ٹارگٹ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، اسرائیلی فوج نے اپنے افسروں کو لیونڈر پروگرام کے ذریعے تیار کردہ ہٹ لسٹ پر بھروسے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مذکورہ اختیار ملنے کے بعد اسرائیلی فوجی ہدف کے چناؤ میں ابتدائی معلومات کی تحقیق اور اسے نشانہ بنانے کی وجوہات کا تعین کرنے کے پابند نہیں رہے۔

واضح رہے کہ مجرم اسرائیلی فوج نے لیونڈر ہٹ لسٹ میں شامل کئی ایسے اہداف کو ’’ڈرٹی بموں‘‘سے تاراج کیا جو ہدف کو ٹھیک سے نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اندریں حالات امریکی گرین سگنل اور صہیونی مجرم سوچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کا اندازہ لگانا ہمارے لئے مشکل نہیں۔ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ دو وجوہات کی بنا پر آج بھی جاری ہے۔

پہلی وجہ انتہائی دائیں بازو کی نمائندہ انتہا پسند صہیونی قیادت کی ذہنیت؛ جبکہ لامتناہی امریکی تعاون دوسری وجہ ہے جس نے غزہ میں صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطنیوں کے قتل عام وغارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

چند دن پہلے امریکی کانگریس نے غزہ میں فلسطینی بچوں کے قتل میں مدد کے لیے اسرائیل کو 26 بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ اور گولا بارود فراہم کرنے کے لیے علانیہ بجٹ منظور کیا۔

یہاں میرا سوال ہے کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنا جائز اور قانونی حق دفاع بروئے کار لانے والے فلسطینیوں کو اسلامی ممالک اسلحہ کے لئے بجٹ کیوں فراہم نہیں کرتے!؟ اسرائیلی رسوخ کا مقابلہ کرنے میں معذوری کی شکار عرب اور اسلامی حکومتیں دراصل اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔

قابض دشمن کے خلاف جنگ کے ضابطے تبدیل

 

صہیونی دشمن غزہ کی پٹی میں اکیلے کھل کھیلنا چاہتا تھا، لیکن مزاحمت کاروں کے مختلف محاذوں کے درمیان باہمی تال میل سے لبنان کی مزاحمت اس مدبھڑ کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ وہاں جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین میں محاذ گرم ہے۔ دشمن کے خلاف جنگی محاذ کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔

کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یمن کے مزاحمت کار بحیرہ احمر سے گذرنے والی اسرائیلی آبی ٹریفک کو بند کر دے دیں گے۔ یمن میں مزاحمتی طاقت نے اسرائیل جانے والی بحری ٹریفک کی نقل وحرکت کو متاثر کیا ہے اور اس کے اسرائیلی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ محاذ اسلامی جمہوریہ ایران، عراق اور شام تک پھیل رہا ہے۔

یہاں ہم قابض صہیونی کے ساتھ تصادم کے اصولوں میں تبدیلی کا واضح مشاہدہ کر رہے ہیں، اسرائیل کے ساتھ تصادم کی تاریخ میں پہلی بار مزاحمت کا محور کھل گیا ہے۔

یہ تبدیلی ایک طرف صہیونی ۔ امریکی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا چیلنج ہے جو یقیناً فلسطین کی آزادی کے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گی۔ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی اندھا دھند نسل کشی کی صہیونی خواہش پر عالمی ضمیر کے صبر کا پیمانہ لبرز ہو چکا ہے۔

یہ سب ایک نئے مرحلے کی پیشین گوئی ہیں جن سے طوفان اقصی کے نتائج ایک نئے سنگ میل کے طور پر ہمارے سامنے نوشتہ دیوار ہیں۔ یہی منظر نامہ فلسطین کی اسرائیلی تسلط سے مکمل آزادی کے لیے دریائے اردن کے مقبوضہ کنارے سے بحیرہ روم تک ایک جامع جنگ کا باعث بنے گا۔

اس تناؤ اور اس علاقائی کشیدگی کے تسلسل کی براہ راست ذمہ داری صہیونی دشمن پر عائد ہوتی ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق سے مسلسل انکاری ہے اور مسحیوں سمیت مسلمانوں کے مقدسات بالخصوص بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر حملہ آور ہے۔ یہی غاصب قوت غزہ کی پٹی میں تباہ کن جنگ کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔

دو سو دن گزرنے کے بعد بھی بہادر فلسطینی عوام کی استقامت جوں کہ توں برقرار ہے۔ ایسے میں ہم پر لازم ہے کہ امت اور عالمی سلامتی کے مشترکہ دشمن غاصب صہیونی ریاست کے خلاف صف آرا بہادر فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ دامے درمے سُخنے قدمے شامل ہو کر اپنی دینی اور ملی بیداری کا ثبوت فراہم کریں۔

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از ڈاکٹر خالد القدومی