جمعه 15/نوامبر/2024

شیخ احمد یاسین شہید کی یاد

پیر 31-مارچ-2008

شیخ احمد یاسین کو شدید علالت کی وجہ سے غزہ ہسپتال  میں داخل کرایا گیا، ان کی خرابی صحت کی خبرسن کر فلسطین کے پیرو جواں مرد وزن بے تاب ہوگئے،مساجد،گلیوں ، محلوں اور گھروں کے اندر ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں ہونے لگیں،دعاؤں کا یہ سلسلہ مسجد اقصی، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی سے ہوتا ہوا چار دنگ عالم پھیل گیا- دنیا کے ہر مظلوم کے لب پر یہ دعا تھی کہ اے اللہ تعالی تو ہی بیماری دینا والا ہے اور تو ہی شفا دینے والا ہے تو سب سے بڑا شا فی ہے شیخ احمد یاسین کو شفا عطاء فرما،آمین-
مخلوق خدا کی دعاؤں اور اپنے خصوصی فضل سے اللہ تعالی نے شیخ یاسین کو کچھ افاقہ دیا تو ان کو ہسپتال سے گھر منتقل کردیا گیا،کسی کو کیا معلوم تھا کہ قابض اسرائیل کے وزیر اعظم ارئیل شیرون اور ان کی افواج نے رات کو ایف 16طیاروں کے پائلٹوں کو حکم جاری کر دیاگیا ہے کہ جوں ہی شیخ یاسین فجر کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوں توان پر ایف 16 کے ذریعے میزا ئل حملے کرکے ان کو شہید کر دیاجائے-
امریکی ساختہ ایف 16جنگی طیاروں نے 22 مارچ2004ء کونماز فجر سے فارغ ہوکر مسجد کے دروازے پر شیخ احمد یاسین پر میزائل حملے کیے اور ان کو شہید کر دیا، شیخ یاسین کی کرسی ان کا یک محافظ چلا رہا تھا محافظ اور شیخ یاسین کے ٹکڑے ہوا میں بکھرگئے، ان کے ہمراہ چار اور بھی فلسطینی شہادت کی منزل پر فائز ہوئے ،17 فلسطینی زخمی ہوئے، شیخ احمد یاسین سے محب کرنے والے ان کی ٹوٹی ہوئی ویل چیئر اپنے ساتھ اس عزم کے ساتھ لے گئے کہ وہ شیخ احمد یاسین کی کرسی سمیت ان کے ایک ایک انگ کا قابض اسرائیلیوں سے بدلہ لیں گے-
اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم ارئیل شیرون نے بڑے فخر سے علان کیا کہ اب شیخ احمد یاسین کی شہادت کے بعد حماس کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اسرائیل پر حملے کرنے کے قابل نہیں رہے گی- مگر وقت نے ثابت کیا کہ لوہے کی سلاخوں کے اندر رہ رہ کر ارئیل شیرون کا اپنا دماغ تو پھٹ گیا مگر حماس کے حملوں میں کمی نہیں آئی ،بلکہ اس دن غزہ میں ساٹھ بچوں کی ولادت ہوئی جن کا نام شیخ احمد رکھ لیا گیا-شیخ احمد یاسین شہادت کا مرتبہ پاکر زندہ ہوگیا مگر شیرون جس کا دباغ پھٹا ہوا ہے وہ نہ زندوں میں ہے اورنہ مردوں میں ہے-
شیخ احمد یاسین کا اکثر وقت مسجد اقصی کی آزادی کی تحریک کو منظم کرتے ہوئے گزرتاتھا،وہ کئی سالوں تک اسرائیل کی جیلوں میں قید وبند رہے معزور ہونے کے باوجود اسرائیلی جیل حکام ان کو قید تنہائی میں رکھتے تھے-
شہادت کے وقت شیخ احمد یاسین شدید علیل تھے جب وہ ہسپتال سے واپس آئے تو عشاء کی نماز مسجد میں ادا کرنے کے لیے ان کو لے جایاگیا،نماز سے فارغ ہوکر انھوں نے کہا کہ آج میں نے مسجد میں اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے آپ مجھے یہاں چھوڑ جائیں، مجھے بہت سکون آرہاہے،چونکہ ان کی صحت اجازت نہیں دیتی تھی اس لیے ان کے محافظوں نے اصرارکیا کہ آپ کی صحت اجازت نہیں دیتی اس لیے گھر چلیں دوا بھی لینی ہے اور کچھ آرام کی بھی ضرورت ہے- ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ بھی دیا ہے- مگر جس کو مسجد میں سکون آتاہو اس کو گھر میں کب سکون آتاہے-
شیخ احمد یاسین کی شہادت نے تحریک آزادی فلسطین کو ایسی جلابخشی کہ اب تحریک پہلے کی نسبت گئی گنا بڑھ چکی ہے-حماس نے انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کی یہ الگ بات ہے کہ مغرب کو یہ منظور نہیں تھا اور اس نے حکومت کو گرادیا،مگر اب اسرائیلی سیاسی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس کو مذکرات میں شامل کیا جائے،حماس کے بغیر یہاں کوئی امن قائم نہیں ہوسکتا- اسرائیل نے ظلم وتشدد کر کے دیکھ لیاہے-
شیخ احمد یاسین کی شہید کی جلائی ہوئی شمع اسرائیلی پھونکوں سے بجنے والی نہیں ہے-
جیلوں کے اندر اسرائیلی شیخ یاسین کے پاس آتے اور کہتے کہ آپ مزاحمت کیوں کررہے ہیں؟ہمارے فوجی بھی مر رہے ہیں اور آپ کے لوگ بھی زندگیاں ہار رہے ہیں،شیخ یاسین کا ان کے لیے ایک ہی جواب ہوتا کہ آپ ریاست کے لیے لڑرہے ہیں جبکہ آپ کے پاس اپنا وطن موجود ہے-آپ جس ملک سے آئے ہیں اس ملک کا پاسپورٹ آج بھی آپ کی جیب میں ہے،اسرائیل میں رہتے ہوئے بھی آپ اس ملک کے شہری ہیں مگر میں اور میرے ساتھی اپنے وطن کے لیے لڑ رہے ہیں ہماراوطن آپ نے اپنی صہیونی ریاست بنانے کے لیے چھین لیا ہے-آپ مجھ سے میرا حق چھین چکے ہیں اور مجھے حق کے حصول کی جدوجہد سے روک رہے ہویہ آپ کو کیسا انصاف ہے؟
صلح کے حوالے سے شیخ یاسین کا موقف بڑا واضع تھا،ان کا کہنہ تھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل کرتے ہوئے پہلے مرحلے پر 1967ء کی سرحد پر چلا جائے پھر ہم دس سال تک سیز فائر کریں گے،اس دوران اگر باہمی مشکلات پیدا نہ ہوئی تو ایک ساتھ رہیں گے اگر اسرائیل اپنی روش سے  باز نہ آیا تو باقی حصہ بھی آزاد کرائیں گے- اسرائیل کے ساتھ شیخ یاسین کسی طرح کے معاہدے کرنے کے حق میں نہیں تھے ان کو خیال تھا کہ آج ہم کمزور ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنی کمزوری کی بنیاد پر معاہدے کریں جس کی سزا ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں- ہمیں آنے والی نسلوں کا راستہ معاہدے کرکے بند نہیں کرنا چاہیے-ہم جس حد تک کوشش کرسکتے ہیں کرنی چاہیے اور آزاد ی کا کام آ نے والوں پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنے راستے خود منتخب کریں- ان کا بڑا واضع موقف تھا کہ خون بہانا ان کا منشور نہیں ہے نہ وہ اپنے بھائیوں کا خون بہاتادیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی یہودیوں کا خون بہاتا دیکھ کر وہ کو کوئی سکون ہوتاہے،مگر صہیونیوں نے ہمارے وطن پر جبراً قبضہ کر لیا ہے اس لیے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے جو خون ضرورت ہے وہ دینا پڑے گا-
وطن کی آزادی کا دشمنوں نے صرف ایک ہی راستہ چھوڑا ہے اور وہ ہے مزاحمت کا راستہ -دشمن نہ تو اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کو مانتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے کسی چارٹر کی پابندی کرتاہے-ایسے میں ہمارے پاس مزاحمت کے سواکوئی چار نہیں ہے اور مزاحمت کا یہ حق ہمیں اقوام متحدہ نے دیا ہے-یہی آزادی کا واحد راستہ ہے-

 

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از راجہ ذاکر خان