فلسطینیوں کے لیے، کیا آج موت کے سوا بھی کوئی انتخاب ہے؟ وادیٔ اجل کے سوا بھی کوئی مقام ہے؟ طبیعت اداس ہے۔ بے بسی کے حصار میں ہوں۔ اس سرزمین کا غم کچھ کم نہ تھا کہ فلسطین کا مقتل بھی ایک بار پھر آباد ہو گیا۔ ‘ایک بار پھر‘ کیا، یہ کبھی غیر آباد ہوا ہی نہ تھا۔ فرشتۂ اجل شاید سستانے کو رکتا اور پھر اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ ہندسے معلوم نہیں کب تک فرشتے کا ساتھ دے پائیں گے۔ تاریخ کے اوراق میں شاید ہی ایسے مقتل کا ذکر ہو‘ جس کی رونقیں برسوں سے ماند نہ پڑی ہوں۔ ایسا مقتل جسے ستر برس سے موت نہیں آئی۔
ہماری بے بسی تو مسلسل ہے مگر کبھی اس کی لہر تیز تر ہو جاتی ہے۔ 1967ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک نے ایک تاریخی کام کیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ اور المیے نے اردو ادب کو جو فن پارے عطا کیے، انہیں جمع کر دیا۔ ”فلسطین اردو ادب میں‘‘ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں مقالات ہیں، افسانے ہیں، سفر نامے ہیں شاعری ہے اور وہ دستاویزات ہیں، جن کی تخلیق کا محرک یہ حادثہ اور مسئلہ فلسطین تھے۔ کرب اور اداسی کی اس کیفیت میں یہ مجموعہ اٹھایا۔ ابنِ انشا کی ایک نظم نے جیسے دل پہ ہاتھ رکھ دیا۔ یوں لگا جیسے ”دیوارِ گریہ‘‘ میں انہوں نے اس بے بسی کو منظوم کر دیا ہے:
”ایک دیوارِ گریہ بناؤ کہیں
یا وہ دیوارِ گریہ ہی لاؤ کہیں
اب جو اُس پار بیت المقدس میں ہے
تاکہ اس سے لپٹ
اردن ومصر کے، شام کے
ان شہیدوں کو یک بار روئیں
اُن کے زخموں کو اشکوں سے دھوئیں
وہ جو غازہ میں لڑ کر
وہ جو سینائی کے دشت میں بے اماں
وحشی دشمن کی توپوں کا ایندھن بنے…‘‘
پچاس برس بعد بھی کیا آج اہلِ فلسطین کے لیے مقتل اور ہمارے لیے دیوارِ گریہ ہی ہے؟ واقعات کی شہادت یہ ہے کہ حالات 1967ء سے کہیں بدتر ہیں۔ اہلِ فلسطین کے لیے امکانات اتنے سمٹ گئے ہیں کہ اب ان کے پاس قدم رکھنے کی زمین بھی باقی نہیں ہے۔ وہی زمین جو ان کے آباؤاجداد کی تھی۔ دنیا پہلے اس مسئلے کا دو ریاستی حل پیش کرتی رہی۔ اب حالات تیزی کے ساتھ ایک ریاستی حل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے نئے مشیر برائے سلامتی، 2009ء میں ایک فارمولا دے چکے: جو آج فلسطین ہے، اس کا کچھ حصہ مصر اور کچھ اردن کو دے دیا جائے۔ یہاں کسی فلسطینی ریاست کی اب عملاً کوئی ضرورت باقی نہیں۔ اسرائیل البتہ اسی طرح آباد رہے۔
دو ریاستی حل کیا تھا؟ اسرائیل اور فلسطین کی متوازی ریاستیں اور یروشلم، ایک بین الاقوامی شہر جو دنیا بھر کے لیے کھلا رہے، بالخصوص ابراہیمی ادیان کو ماننے والوں کے لیے جن کی اس شہر اور گرد و نواح سے روحانی اور مذہبی وابستگی ہے۔ فلسطینیوں نے اس حل کو قبول کیا نہ دوسرے عربوں نے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو مٹا کر ہی دم لیں گے۔ اہلِ فلسطین نے اپنے اعلان کی لاج رکھنے کے لیے قربانیوں کی لازوال تاریک رقم کر دی۔ ایک مقتل کو مسلسل آباد کرکے دکھا دیا۔ مگر ستر برس کی اس جدوجہد کا حاصل، آج اس مقتل کے سوا کچھ نہیں۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس کے تین بڑے اسباب ہیں۔ پہلا سبب اہلِ فلسطین کا فکری اور عملی انتشار ہے۔ اہلِ فلسطین میں پہلے ہی دن سے کوئی فکری وحدت نہیں ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد، آزادی کی ایک تحریک اٹھی جس کی اساس مروجہ تصورِِ قومیت تھی‘ جس کے مطابق قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اس میں سب فلسطینی شریک تھے، مسلم، یہودی اور مسیحی۔ دوسری تحریک وہ تھی جس کی اساس مسلم قومیت تھی، یعنی قومیں مذہب سے بنتی ہیں۔ اس میں صرف مسلمان ہی شریک ہو سکتے تھے۔
یہ انتشار حکمتِ عملی میں بھی نمایاں تھا۔ مسلح جدوجہد یا سیاسی؟ پی ایل او نے یاسر عرفات کی قیادت میں مسلح جدوجہد شروع کی۔ اس تحریک پر اشتراکی فکر کا غلبہ تھا۔ یاسر عرفات سوویت یونین سے قریب تر تھے اور دنیا بھر کی اشتراکی تحریکیں پی ایل او کی حمایت کرتی تھی۔ پھر اسلامی تحریکوں کے زیرِ اثر ایک دوسری تحریکِ آزادی ابھری جس نے آزادی کی جدوجہد کو مذہبی رنگ دیا۔ تجربات پی ایل او کو مسلح سے سیاسی راستے پر لے آئے اور اسے حقیقت پسند بنا دیا۔ اب مسلح جدوجہد کا عَلَم اسلام پرستوں نے اٹھا لیا۔ حماس اس کی علامت بن گئی۔ گویا پرانے تجربے کو ایک نئے عنوان سے دھرایا گیا۔ اس انتشارِ فکروعمل سے مقتل مسلسل آباد رہا۔ پہلے فلسطینی قومیت کی بنیاد پر مرتے رہے پھر مذہب کے نام پر۔ نقصان تحریکِ آزادی کو ہوا۔
دوسرا سبب، عرب حکمرانوں کا رویہ تھا۔ انہوں نے فلسطین کے باب میں کوئی سنجیدہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کی۔ عرب اسرائیل جنگ میں شکست نے ان کے اختلافات اور کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ مصر نے اپنے بچاؤ کے لیے مصالحت میں پناہ ڈھونڈی۔ انوارالسادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا، غدار قرار پائے اور اگلے جہاں پہنچا دیے گئے۔ دوسروں نے خاموشی کے ساتھ ہاتھ کھینچ لیا۔ اس وقت عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کی تائید صرف علامتی ہے۔ اس کا ثبوت جمعہ کو ہونے والا او آئی سی کا اجلاس ہے۔ فلسطینی جان نہیں سکے کہ ان کا سامنا ایک ریاست سے ہے جو مبینہ طور پر ایٹمی قوت ہے۔ یہی نہیں، عالمی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔ وہ سالوں سے تنہا ہو چکے ہیں مگر ان کی حکمتِ عملی میں اس حقیقت کا کوئی عکس نہیں۔
دوسری طرف اسرائیل کو اقوامِ متحدہ نے جو علاقہ دیا تھا، وہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکا۔ اس کے ناجائز قبضے کو دنیا نے بالفعل مان لیا۔ امریکا نے ایسے ہی مقبوضہ علاقے میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرکے، گویا زبانِ حال سے یہ بتا دیا کہ وہ اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ سمجھتا ہے۔
تیسرا سبب عالمی قوتوں کا بے رحمانہ رویہ ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کے خلاف بے شمار قراردادیں منظور کیں۔ امریکہ انہیں ویٹو کرتا رہا۔ 15 مئی کو اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا۔ اقوامِ متحدہ ہیومن رائٹس کونسل کے سربراہ زید رعدالحسین نے کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے نہتے لوگوں کے سینے اور پیٹھ پر گولیاں برسائیں اور اس بات کی شعوری کوشش نہیں کی کہ انسانی جانوں کو بچایا جائے۔ اس کے باوجود واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کی مخالفت کی گئی۔ امریکہ نے اسرائیلی ظلم کا جس طرح ساتھ دیا، انسانی ضمیر کسی طرح اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ تاہم امرِ واقعہ یہی ہے کہ دنیا اس کے باوصف فلسطینیوں کی حمایت کے لیے گرم جوش نہیں۔
آج فلسطینیوں کو سوچنا ہے کہ تنہائی کے اس عالم میں انہیں کیا کرنا ہے؟ موت یا پھر زندگی کی طرف رجوع کی کوشش؟ میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں اپنی تعمیر اور اپنے مقدمے کو علمی اور سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے صرف کریں۔ احتجاج کو ترک کرتے ہوئے، ساری توجہ تعلیم، صحت اور سماجی ترقی پر مرتکز کریں۔ اس باب میں حماس وغیرہ نے اہم کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اپنا مقدمہ عالمی ضمیر کی عدالت میں پیش کرتے رہیں اور اس کے لیے دنیا کی اخلاقی اور سفارتی تائید کے حصول کی کوشش کریں۔ عالمِ اسلام دو ریاستی حل کے لیے یکسو ہو اور اس خطے کا نقشہ اس منصوبے پر بنانے کا مطالبہ کرے جس پر 1948ء میں اتفاق ہوا تھا۔ اگر یہ نہ ہو سکا تو مجھے خطرہ ہے کہ معاملات ایک ریاستی حل کی طرف بڑھیں گے جنہیں روکنا ممکن نہ ہو گا۔
عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے لیے راستہ یہ ہے کہ اس دو ریاستی حل کے لیے اپنی تمام سفارتی کوششیں منظم کریں۔ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی مدد یہ ہے کہ انہیں وہ کچھ مل جائے جس کا 1948ء میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اگر عالمِ اسلام یہ بھی نہیں کر سکتا تو پھر اسے ابنِ انشا کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے… ایک دیوارِ گریہ کی تلاش۔
بشکریہ روزنامہ "دنیا”۔