جمعه 15/نوامبر/2024

دشمن ریاست

بدھ 26-ستمبر-2007

امریکہ نے غزہ کو دشمن ریاست قرار دے کر نومبر میں مجوزہ اپنی ہی مشرق وسطی امن کانفرنس کا بھانڈہ پھوڑ دیا- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سمیت مغربی ممالک نے امریکہ کے اس اعلان پر شدید تنقید کی ہے اور اس کو امن کانفرنس کے خلاف جنگ گردانا-اسلامی ممالک کی طرف سے بھی امریکہ کے اس علان پر غم وغصے کااظہار کیا جارہے ہے، امریکہ نے بیرونی دبائو کو دیکھتے ہوئے پینترہ بدلا ہے اور کہا ہے کہ چونکہ غزہ میں حماس کی حکومت ہے اس لیے غزہ کو دشمن ریاست کہا گیا ہے- اگر حماس کی حکومت نہ ہوتی تو ایسا اعلان نہیں ہونا تھا-
امریکہ کی دیکھا دیکھی میں اسرائیل کی وزیر خارجہ لیفنی نے کہا ہے کہ امریکہ میں نومبر کو ہونے والی اس کانفرنس کا ایجنڈا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ حماس کو کیسے کچلا جائے- محمود عباس کے ساتھ ہمارے مذاکرات اس لیے چل رہے ہیں کہ وہ حماس کو کچلنے کا ارادہ رکھتے ہیں- فلسطینی ریاست کے قیام میں ابھی بڑی رکاوٹیں ہیں ہمارے ہاں اس بارے کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے- اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے آنے والے بیانات کے بعد یہ حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ اس امن کانفرنس کا مقصد مشرق وسطی میں کشیدگی کو ختم کروانا نہیں بلکہ مزاحمت کو ختم کروانا ہے-
چند دن قبل اسرائیل کے جنگی طیاروں نے شام کے علاقے میں حملہ کیا اور کہا کہ انھوں نے شام کی ایٹمی تنصیابات پر حملہ کیا ہے- اسرائیل نے الزام لگایا کہ یہ یہاں ایٹمی مواد تیار کیا جارہا تھا- اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ شام ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے- اسرائیل کے قومی اخبار ہارٹز نے امریکی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے سیکرٹری کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ لیبیا، شام اور ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر قدیم نیٹ ورک کے ذریعے حاصل ہورہی ہے- اس لیے اسرائیل پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو خطرہ قرار دے کر اس کے خلاف مہم چلا رہا ہے- اسرائیل کی اس مہم میں امریکہ بھرپور کردار ادا کررہا ہے- امریکہ کو صہیونی لابی نے شیشے میں اتارا ہوا ہے- اس لیے جو صہیونی منصوبہ تیار کرتے ہیں امریکی آنکھیں بند کر کے اس پر عمل درآمد شروع کردیتے ہیں-
امریکہ نے صہیونیوں کے کہنے پر غزہ کو دشمن ریاست قرار دیا ہے- اگر دیکھا جائے تو فلسطین میں جب سے بھی حماس نے الیکشن جیت کر حکومت قائم کی ہے امریکہ کے خلاف کوئی بات نہیں کی ہے- حماس نے شروع دن سے یہ مؤقف اختیار کیا ہوا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے- ہماری جنگ قابض یہودیوں کے خلاف ہے جنھوں  نے ہمارے ملک پر جبراً قبضہ کیا ہوا ہے- امریکہ قابض صہیونیوں کا حمایتی بن کر ہمیں دشمن قرار دے رہا ہے- حماس نے آج تک امریکہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے اور نہ ہی ہماری امریکیوں سے کوئی لڑائی ہے- امریکی صہیونیوں نے غزہ پر حملے کا پروگرام بنوایا ہے- مگر اسرائیل کے اندر جو صورتحال ہے وہ یہ ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ جنگ فلسطین سے باہر لڑی جائے- اسرائیل کی حکومت کا منصوبہ ہے کہ غزہ پر بڑے حملے سے قبل شام اور ایران پر حملے کی جائیں-
 امریکہ کے اندر اور اسرائیل جو کہ بھارت کے ساتھ دوستی کے ہاتھ بڑھارہے ہیں ان کا خیال ہے کہ شام اور ایران یا کوئی بھی اسلامی ریاست اگر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرے گی تو اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہوگا اس لیے پاکستان سے ایٹمی اسلحہ واپس لیا جاجائے-
پاکستان سے ایٹمی اسلحہ چھیننے کے منصوبے پر کام شروع ہے- اسرائیل نے سازش تیار کررکھی ہے کہ پہلے ایران پر حملہ کیا جائے اور شام کو اس سے دور رکھا جائے یا شام پر حملہ کیا جائے اور ایران کو اس سے دور رکھا جائے تاکہ جنگ جیتنا آسان ہو جائے- اسرائیل نے یہ مؤقف اس لیے اختیار کیا ہے کہ فلسطین میں جنتی مزاحمت ہورہی ہے- اس کے پیچھے یہی ممالک کام کررہے ہیں- فلسطین میں مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شام اور ایران پر حملے کر کے ان کو کمزور کردیا جائے اور ان پر اس وقت تک حملے جاری رکھے جائیں جب تک وہ فلسطینیوں کی امداد سے توبہ نہیں کرلیتے- جب فلسطینیوں کی بیرونی امداد بند ہو جائے گی تو وہ مزاحمت کے قابل نہیں رہیں گے-
اسرائیل کا یہ خیال غلط اس لیے ہے کہ فلسطینیوں نے مزاحمت کا آغاز پتھروں سے کیا اور پتھر نہ تو شام سے اور نہ ہی ایران سے لائے گئے تھے- فلسطینی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کی مزاحمت آزادی ملنے پر ہی ختم ہو سکتی ہے- شام اور ایران پر حملوں کے بعد ختم نہیں ہوسکتی-
حماس نے مغربی کنارے اور غزہ میں حکومت قائم کر کے اس کو بہترین انداز سے چلایا اور اب غزہ میں مقامی حکومت چلا رہے ہیں- اس کے باوجود کے امریکہ اور اسرائیل نے ان کے تمام راستے بند کررکھے ہیں- حماس کے چونکہ مسئلے فلسطین کے منصفانہ حل کی بات کرتی ہے- اس لیے امریکہ اور اسرائیل کو پسند نہیں ہے- مگر عوام کو حماس پسند ہے وہ ان کے حقوق کی بازیابی کی بات کرتی ہے-
اسرائیل نے لبنان اور امریکہ نے عراق میں حملے کر کے دیکھ لیا ہے اب اگر انہوں نے مزید حماقت کی تو ان کا حشر پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگا- خطے میں امن کا قیام اس صورت قائم ہوسکتا ہے جب انصاف سے کام کیا جائے-

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از راجہ ذاکر خان