جمعه 15/نوامبر/2024

خوف یا خوشخبری

جمعہ 2-اپریل-2010

جب وہ الجورا کے چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تو جنگ عظیم اول کے بعد عالمی طاقتیں مسلم امہ کا شیرازہ بکھیر کر خلافت عثمانہ کو پارہ پارہ کر چکی تھیں اور اس کا ملک اس بندر بانٹ میں برطانیہ کے حصے میں آیا تھا- برطانیہ کا اس پر تسلط بھی ایک خفیہ معاہدے ’’بالفورمعاہدہ ‘‘ کی وجہ سے قائم کیا گیا تھا-
 
اس معاہدے کے تحت تاج برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں سے ایک سازشی گٹھ جوڑ کیا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی اور جس ملک میں رہتے ہوں گے جنگ کے زمانے میں برطانیہ کی مددکریں گے جس کے نتیجے میں برطانیہ انہیں ان کی مقدس سرزمین میں دوبارہ آباد کرکے ان کی ریاست قائم کریگا- الجورا کا گاؤں بھی اسی سرزمین میں آتاتھا جہاں 18دسمبر 1937ء کو ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس نے آئندہ چل کر اس خطے کے غلام ،مظلوم اور مجبور مسلمانوں کے لیے روحانی اور سیاسی سطح پر ایک روشن چراغ کی طرح ابھرناتھا- شیخ احمد اسماعیل حسن- وہ ابھی تین سال کاتھا کہ اس کے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا – یہ وہ زمانہ تھا جب اس کے فلسطین میں برطانیہ خاموشی اور انتظامی بددیانتی سے پوری دنیا سے یہودیوں کو یہاں لا کر آباد کررہاتھا – کہیں انہیں سرکاری زمینیں دی جاتیں اور کسی جگہ لالچ سے فلسطینیوں کے گھر خرید کرانہیں وہاں آباد کیا جاتا- دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی جو یہودی جس ملک میں بھی تھا اس نے اپنے ہی وطن سے غداری کرکے انگریز کا یا اتحادی فوجوں کا ساتھ دیا- جاسوسیاں کیں ،اپنے ماہرین تکنیکی مدد کے لیے بھیجے، یہی وجہ تھی کہ ہٹلر نے یہودیوں کو جرمن قوم سے غداری کے صلے میں نفرت کا نشان بنادیا-
 
اتحادی جنگ عظیم دوم جیت گئے- اب بالفور معاہدے کے تحت یہودیوں کی سلطنت قائم ہوناتھی- مسلمان امت کے پہلے سے ہی حصے بخرے کیے جا چکے تھے – اسرائیل کا قیام عمل میں لایاگیا تو جس مسلمان میں جتنا بھی درد تھا اس نے وہاں جا کر یہودیوں کے خلاف جنگ کی – 1948ء کی اس جنگ میں صدام حسین نے بھی عراق سے جا کر اس جنگ میں حصہ لیا جسے یہودی آخر تک نہ بھولے اور اسے عبرت کا نشان بنادیا- اسی جنگ میں شیخ احمد کاگاؤں بھی اسرائیل کے قبضے میں آگیا اور وہ گیارہ سال کی عمر میں ہجرت کرکے صحرائے سینا کے کنارے غزہ میں جا کر آباد ہو گیا- اسے شروع ہی سے پہلوانی کا شوق تھا- ایسی ہی ایک زور آزمائی کے دوران اسے اس طرح کی چوٹیں آئیں کہ 45 دن تک اس کی گردن پلاسٹک میں بندھی رہی- جب پلاسٹک کھلا تو پتہ چلا کہ اس کا نچلا دھڑ ریڑھ کی ہڈی میں زخموں کی وجہ سے ناکارہ ہوچکاہے اور اسے تمام عمر ایک معذور کی حیثیت سے زندگی گزارنا ہوگی-

اس نے اپنی اس معذوری کے ذمہ دار شخص کا نام تک کسی شخص نہ بتایا اور کمال ظرف کے ساتھ یہ سب کچھ تمام عمر برداشت کیا- ذرا بڑا ہوا تو اس نے الازہر یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن اپنی معذوری اور گرتی ہوئی صحت کی بناء پر وہاں تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا- لیکن علم کا شوق  تو کبھی ختم نہیں ہوتا- اس نے گھر میں رہ کر تحصیل علم جاری رکھی- فلسفہ عمرانیات، سیاسیات ،معاشیات اور اسلامی علوم پر اس نے ایسی دسترس حاصل کی کہ پورے فلسطین میں کوئی ان موضوعات پر اس سے بہتر گفتگو کرنے والا موجود نہ تھا- وہ لوگوں کی زبان میں شیخ احمد یسین کے نام سے مشہور ہوگیا- لوگ اس کی گفتگو اس انہماک سے سنتے کہ ہزاروں کے مجمع میں سوئی بھی گرتی تو آواز آجاتی-
 
اس کے جمعے کے خطبے پورے علاقے میں مقبول تھے- معذوری علم کی پیاس اور اللہ سے تعلق نے اس پر وہ روحانی دروازے وا کئے کہ اس کی حیثیت ایک ایسے بزرگ کی ہوگئی جس پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق ’’مومن کی فراست سے ڈرو اور وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہاہوتاہے – ‘‘ کے مصداق بہت سی حقیقتیں آشکار ہونے لگیں – یوں وہ فلسطینیوں کے لئے ایک روحانی رہنما اور علم کی پیاس بجھانے والا عالم بن چکاتھا- اس نے ذریعہ معاش کے لیے ایک ہائی سکو ل میں عربی ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی- بہت سے استادوں کا یہ خیال تھاکہ وہ معذوری کی وجہ سے بچوں کو صحیح طور پر پڑھانہیں سکے گا- لیکن اس کی بحیثیت استاد شہرت چار دانگ عالم میں جاپہنچی-

فلسطین کا یہ عالم ،روحانی بزرگ اور رہنما اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا- اسی لیے اس معذور شخص کو جووہیل چیئرکے بغیر اٹھ بھی نہیں سکتاتھا، جس کی بینائی بھی تقریباً ختم تھی،1984میں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا اور وہ ایک سال بعد فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک نیم فوجی معاہدہ کے تحت رہا ہوا- اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستوں پر چلنے والے اس صوفی بزرگ کو اس بات کا احساس تھاکہ ظلم، جبر اور زیادتی کے خلاف خاموش رہناوہ منافقت ہے جو کسی صوفی کے مذہب میں جائز نہیں-
 
اس نے اسی اصول کے تحت 1987ء میں حماس کی بنیاد رکھی- وہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں میں دین کے احیاء کے لیے اخوان المسلمون میں کا م کرتارہاتھا،حماس کے کارکنوں نے جس جذبے کے تحت ہسپتالوں ، سکولوں ،یونیورسٹیوں ،ایمبولینسوں اور رفاہ عامہ کے کاموں کا جال پورے فلسطین میں بچھا یا اس کی مثال پوری عرب تاریخ بلکہ دنیابھر میں ملنی مشکل ہے- شیخ احمد یسین کے یہ روحانی شاگرد اپنی دانت داری اور اخلاق کی وجہ سے پہچانے جانے لگے- حماس نے ابھی ہتھیار نہیں اٹھائے تھے- وہ تو صرف مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرتے تھے – ان کے اجڑے گھر بساتے تھے – اس کے باوجود معذور احمد یسین کو 1989ء میں گرفتار کرلیاگیا اور اسرائیل کی ایک عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنادی-

آٹھ سال جیل کاٹنے کے بعد وہ اردن اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کی بنیاد پر رہا ہوا- یہ معاہدہ اس وجہ سے ہواتھاکہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے حماس کے خالد مشعل پر قاتلانہ حملہ کیا ،ناکام ہوئے اور اس کے دو ایجنٹ گرفتار ہوگئے -جن کے بدلے میں شیخ احمد یسین کی رہائی ہوئی – اب حماس کی قیادت ایک دفعہ پھر اس کے ہاتھ میں تھی – وہ تمام بٹے ہوئے فلسطینی رہنما اب لوگوں کے دلوں سے اتر چکے تھے – شیخ احمد یسین کی تقریریں لوگوں کا لہو گرماتی ،اس کے کارکنان کا رفاحی کام ان کے دل جیتنااور اس کی روحانی نظر اور اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ان لوگوں کا تزکیہ کرتا- اب یہ شخص ناقابل برداشت تھا- 6ستمبر 2003ء کو اسرائیل کے ایک F-16طیارے نے اس بلڈنگ پر بم برسائے جس میں وہ موجود تھا لیکن وہ بچ گیا – لیکن آج سے ٹھیک چھ سال قبل اسی مارچ کے مہینے کی 22تاریخ کو اسرائیل کا ایک گن شپ ہیلی کاپٹر اڑتا ہوا آیا- وہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آ رہا تھا- گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور اس کے ساتھ دس بے گناہ شہری بھی شہید ہو گئے –

اپنی شہادت سے چند ماہ قبل اس نے لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھاکہ مجھے خواب میں یہ دکھایا گیاہے کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہوگی – لیکن اگلے کئی سال مسلم امت پر ایسے گزریں گے کہ ہر ملک قصبے اور قریے میں ان کا خون ارزاں کردیا جائے گا- لاکھوں بے گناہ مارے جائیں گے – لیکن اس نے اپنے نورانی چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہاکہ 2010ء میں اللہ ان قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے مسلمانوں کے دن پھیر نے شروع کردے گا- پوری مسلم امت کو بہترین رہنما میسرآجائیں جو اس کا وقار پورے عالم میں بلند کریں گے – لیکن اس سے پہلے وہ جنہوں نے اس امت کو ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ، جو چور تھے ، منافق تھے ، کاسہ لیس تھے، اسی امت کے ہاتھوں بدترین انجام سے دوچار ہوں گے –

شیخ احمد یسین کی بشارتیں تو ایک روحانی مقام رکھتی ہیں- لیکن جب پوری دنیا کے خوفزدہ ستارہ شناسوں ،عالموں اور تقدیر پڑھنے والوں کے تبصرے اور قیاس آرائیاں دیکھتاہوں، جنہوں نے متفقہ طور پر کہاہے کہ 2010ء میں پوری دنیا کی نوے فیصد سے زیادہ قیادت نیست و نابود ہوجائے گی- نئے لوگ منظر عام پر آئیں گے تو چھ سال قبل شیخ احمد یسین کی کہی بات یاد آجاتی ہے- عجیب بات ہے ایک ہی بات ہے، ایک جانب کے لوگ اسے خوف کے عالم میں بیان کررہے ہیں اور دوسری جانب میرے اللہ کو ماننے والے خوشخبری کے طورپر دہراتے ہیں – خوف ان کے لیے جن کے اعمال کی سزا ان کے سامنے آنے والی ہے اور بشارت ان کے لئے جو حق پر قائم رہے، مصیبتیں جھیلیں ،تکلیفیں اٹھائیں اور اب اللہ انہیں انعام سے نوازنے والا ہے-

 
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از اوریا مقبول جان