سیکولر جماعت فتح کے قائد محمود عباس کو غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران جنگی جرائم کے الزامات پر مبنی رپورٹ پر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں ووٹنگ ملتوی کئے جانے کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے اور ان کی مقبولیت نہایت تیزی سے کم ہو رہی ہے-
مشتعل فلسطینی مظاہرین کی جانب سے محمود عباس کو امریکی ہاتھوں میں کھلونا بننے اور اس رپورٹ کو جان بوجھ کر دبانے کے الزامات کے تحت بھرپور احتجاج کے بعد فلسطینی صدر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے- جنوبی افریقین جج رچرڈ گولڈ سٹون کی تیار کردہ 575 صفحات کی اس رپورٹ کی توثیق گزشتہ جمعہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس کے دوران کی گئی تھی اگرچہ اس رپورٹ میں حماس اور اسرائیل دونوں پر تنقید کی گئی تھی لیکن صیہونی ریاست کو اپنا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی-
رام اللہ کے فلسطینی تجزیہ نگار وفا امر کا کہنا ہے کہ اب حماس غزہ کے مقابلے میں مغربی کنارے میں زیادہ مقبول ہے- وہ کہتے ہیں کہ مغربی کنارے کے لوگ حماس کے زیرسایہ تو نہیں مگر اس کے باوجود وہ حماس کو مزاحمت اور وقار کی علامت جبکہ محمود عباس انتظامیہ کو کمزوری کی نشانی سمجھتے ہیں- ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر سیاسی بے تدبیری کے باعث انہوں نے امریکا و اسرائیل ہی نہیں اپنے ووٹروں کو بھی ناراض کردیا ہے اور کوئی بڑی بات نہیں کہ وہ ئندہ انتخابات ہار جائیں-
70سالہ گولڈسٹون نے سفارش کی تھی کہ ان کی رپورٹ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجا جائے تاکہ اس پر موزوں کارروائی کی جا سکے گی- امریکا کا خیال تھا کہ اس رپورٹ پر عملدر مد کی صورت میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ناراض ہوجائیں گے اور یوں امن عمل ایک مرتبہ پھر رک جائے گا-
اسرائیلی ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس جس طرح مضبوط ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں شاید نیتن یاہو کو مذاکرات کے دوران کچھ معاملات پر پسپائی اختیار کرنا پڑے- اسرائیلی تجزیہ نگار مٹی سٹین برگ کہتے ہیں کہ اگر ئندہ سال تک امن عمل میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی تو حماس مغربی کنارے کا کنٹرول بھی حاصل کرلے گی-
نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ حماس مغربی کنارے کا انتظام سنبھال لے کیونکہ وہ فلسطینیوں سے امن کی سیاسی قیمت چکانے کے روادار نہیں چند علاقائی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر اب بھی سنجیدہ مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوجائے تو محمود عباس کی انتخابی کامیابی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں-