یہ اقدام انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے کیونکہ مصر کی عدلیہ فوجی جنتا کے تابع ہے اور ملزمان پر کھلی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا رہا ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اس غیر قانونی کارروائی کے خلاف امریکی انتظامیہ اور یورپی یونین آواز نہیں اُٹھا رہی ہیں۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے غزہ پر اسرائیل کی ممکنہ فوجی کارروائی کا نہ صرف سدباب کیا بلکہ مقتد رہ کے صدر محمود عباس اور حماس کے مابین صلح صفائی کی کوشش کی تا کہ فلسطینی قیادت متحد ہو کر اسرائیل سے مذاکرات کرے۔ ان کی اس کوشش کی بھرپور تائید ترک کے وزیراعظم رجب طیب اردوان نے کی۔ ڈاکٹر محمد مرسی کا رویہ متعدل اور تعمیری تھا جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صدر اوباما نے حماس اور اسرائیل کے مابین محمد مرسی کے کردار کو سراہا تھا جبکہ بعض اخوان کے حامی اس بات سے خوش نہ تھے کہ انہوں نے انوار السادات نے 26 مارچ 1979ء میں اسرائیل سے کیے گئے معاہدے کو منسوخ نہیں کیا۔ اس ظاہر ہوتا ہے کہ محمد مرسی اندرون ملک جمہوری روایات قائم کرنا چاہتے تھے جبکہ اسرائیل سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری کر کے عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اخوان بین الاقوامی قانون کی جانب سے عائد کردہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
لیکن تنگ نظر اور انتہا پسند صلیبی صیہونی ٹولہ کسی صورت انہیں گوارا کرنے کو تیار نہ تھا۔ بلکہ اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے چنانچہ جب جب اور جہاں جہاں مسلم ممالک میں امدادی تحریکیں عوامی حمایت سے کامیاب ہوئیں تو انہیں اس بنا پر برسر اقتدار آنے سے بزور طاقت روکا گیا۔ خواہ الجزائر میں 1989ء میں اسلامی محاذ ہو، یا مصر میں اخوان یا تیونس میں النہضہ ہو۔
جہاں تک مندرجہ بالا اسلامی تنظیموں کے خلاف دہشت گردی کا الزام ہے تو یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ اگر کوئی تنظیم جمہوری عمل میں حصہ لے کر انتخاب میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے دہشت گرد کیونکر کہا جا سکتا ہے؟ البتہ جو اندرونی اور بیرونی طاقتیں منتخب حکومتوں کو برسر اقتدار آنے سے روکتی ہیں یا انہیں اپنی مدت پوری کرنے سے روکتی ہیں وہ بے شک دہشت گرد ہیں۔ دہشت گردوں کی جو بھی تاویل کی جائے اس اعتبار سے کسی فرد یا گروہ کو اسے قانونی اور انسانی حقوق کے حصول سے روکنا دہشت گردی ہی کے زمرے میں آئے گا۔
مصر میں طنطاوی کی فوجی جنتا کی جانب سے الہضہ پارلیمانی اور صدارتی انتخاب میں اخوان کامیاب ہوئے۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں کیے گئے۔ انتخاب میں حماس کامیاب ہوئی۔ اخوان کو ایک سال کے اندر اندر بلوہ فساد کرا کر فوجی جنتا اور اس کے حامیوں نے معزول کرا دیا جبکہ حماس حکومت کو فلسطینی مقتدرہ کے صدر نے برطرف کر دیا حالانکہ محمود عباس کو آئین کی رو سے منتخب حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا اور اب تو وہ قانوناً صدر بھی نہیں رہے کیونکہ ان کی صدارت کی مدت کب کی ختم ہو چکی۔
کیا یورپی ممالک یا امریکہ میں یہ ممکن ہے کہ ہنگاموں ، ہڑتالوں، گھیراؤ جلاؤ کے بعد فوج منتخب حکومت کو مورد الزام قرار دے کر ریاست پر مسلط ہو جائے اور پچاس ساٹھ سال تک من مانی حکومت کرتی رہے؟ کیا وال سٹریٹ پر قبضہ کرکے تحریک کے نتیجے میں امریکی فوج کے سربراہ نے منتخب صدر بارک اوباما کو معزول کر کے امریکہ کا راج پاٹ سنبھال لیا تھا۔ 2008ء میں کساد بازاری میں سے متاثر یورپی ممالک یونا، اٹلی، میں عوامی احتجاج پر ان ریاستوں کے فوجی سربراہوں نے منتخب حکومتوں کو برطرف کر دیا تھا۔ برطرف کرنا تو دور کی بات ہے جمہوری ممالک میں تو فوج حصول اقتدار کا تصور بھی نہیں کر سکتی؟ پھر یہ دہرا معیار کیوں ؟ کہ محمود عباس نے اخوان کی منتخب پارلیمان اور صدر کر برطرف کر کے جمہوریت کو بحال کر دیا؟
سمجھ میں نہیں آتا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبردار مغربی طاقتیں کیوں ان غاصب جرنیلوں کو جمہوریت کا محافظ اور قوم کا مسیحا کہتی ہیں جبکہ یہ سب کے سب دہشت گرد ہیں جنہوں نے ووٹ کے ذریعے نہیں بندوق کی نالی پر اقتدار غضب کیا ہے۔ عبدالفتاح السیسی کے حکم سے 14 اگست کو نہتے مظاہرین کا قتل عام اسے بین الاقوامی قانون کی رو سے انسانیت کا مجرم قرار دینے کے لیے ناقابل تردید شہادت ہے۔
کہاں ہیں ثناء خوانِ تقدیس جمہوریت؟ عوام دشمن، انسانیت کے قاتلوں اور انسانیت کے مجرموں کے ساتھ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے یا پنجرے میں قید ہونے کی بجائے عبدالفتاح السیسی مسند اقتدار پر ظلمت افروز ہے جبکہ محسود عباس حزب اختلاف میں ہونے کی بجائے برسر اقتدار ہے۔
جیسا کہ اورپر بیان کیا جا چکا ہے یہ صلیبی صیہونی ایجنڈا ہے کہ کسی بھی اسلامی تحریک کو برسر اقتدار نہ آنے دیا جائے اور اگر وہ کامیاب ہو جائے تو اسے بزور طاقت ہٹا دیا جائے۔ یہی کچھ اسلامی محاذ نجات، اخوان، النہضہ کے ساتھ ہوا اور یہی ہتھکنڈہ طیب اردوان کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔