غالباً اس کی دوسری وجوہ بھی ہیں۔ مغربی میڈیا میں اسرائیلی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا ہدف پورا نہیں ہوا۔
اسرائیلی چاہتے تھے کہ حماس کا فوجی، سیاسی ڈھانچہ تباہ ہو جائے اور ان کے میانہ رو مخالف الفتح کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو۔ 14 جنوری کو یہ خبر تھی کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر اور الفتح کے رکن محمود عباس اور ان کی پارٹی کا اثر و رسوخ ہر روز کم ہو رہا ہے۔ غزہ پر جتنے بم گرتے ہیں، حماس کی حمایت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ 2006ء میں حماس کی الیکشن میں مکمل فتح کے بعد سے محمود عباس غزہ میں داخل بھی نہیں ہو سکے ہیں، تو وہ اس علاقے میں قائدانہ کردار کیسے ادا کریں گے؟
اسرائیل اور مصر یہ چاہتے ہیں کہ غزہ کی تعمیر نو کے پروگرام میں الفتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی کا مرکزی کردار ہو۔ کویت میں عرب لیڈروں کی ایک کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے مجوزہ عرب فنڈ کے لئے ایک ارب ڈالر کا عطیہ دینے کا اعلان کیا، عرب فنڈ کل دو ارب ڈالر کا ہو گا۔تعمیر نو کا کیا حشر ہوتا ہے؟ یہ دنیا عراق میں دیکھ چکی ہے۔ 118/ارب ڈالر کے منصوبے میں 100/ارب ڈالر ضائع ہوئے۔
ٹھیکیداروں اور سیاستدانوں نے کھا لئے یعنی پورے منصوبے کا 90 فیصد ضائع ہو گا۔ اسرائیلیوں نے 1980ء کی افغان جنگ میں 1967ء میں مصر وغیرہ سے سوویت ساخت کا لوٹا ہوا اسلحہ مجاہدین کے سر تھونپ دیا۔ کوئی ہتھیار کام کا نہیں تھا۔ مصری بھی کچھ کم نہیں ہیں اور الفتح کے میانہ رو سیاستداں اسرائیل اور مغربی ملک کی آڑ میں کوئی ٹھوس ترقیاتی کام نہیں ہونے دیں گے یا اتنا ناقص کام کریں گے کہ اس کا نہ ہونا بہتر ہے۔ اگر عراق میں 100/ارب ڈالر ضائع ہو گئے تو غزہ کے دو ارب ڈالر کس گنتی میں ہیں؟
ایک اسرائیلی لیفٹیننٹ جنرل غبی اشکنازی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ حماس کے عمارتی ڈھانچے کو خاصہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان کی مراد ان عمارتوں سے تھی جہاں حماس کے دفاتر ہیں۔ سویلین فلسطینیوں کے 5000 مکان بمباری سے تباہ کر دیئے گئے۔ سابق وزیراعظم BENJAMIN NETENYAHO نے کہا کہ ایک نہ ایک دن حماس کو غزہ سے ہٹانا ہو گا۔ جس وقت انہوں نے بیان دیا تھا، اسرائلی بمباری شدید تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اگر اس جنگ میں یہ مقصد پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کی حمایت کریں گے۔
فلسطینیوں میں حماس کا ظہور نسبتاً حالیہ واقعہ ہے جب اسرائیل بنایا گیا تو اس سرزمین پر صرف 612000 یہودی اور 1.2 ملین فلسطینی تھی۔ سیکولر سیاست کے حامی اگر اس وقت ہی ایک سیکولر ریاست قائم کرتے، جہاں یہودی اور مسلمان اور عیسائی فلسطینی اکٹھے میل جول سے رہتے تو یہ قصہ ہی نہ ہوتا لیکن اس وقت جنون تھا کہ توریت کی تاریخ کو دہرایا جائے۔ 12 لاکھ فلسطینیوں کو دہشت گردی کے ذریعے ان کے گھروں سے دربدر کیا گیا۔
ان کی نسلوں نے بوسیدہ خیموں میں زندگی گزاری۔ اسرائیل اپنی فوجی قوت کے سہارے زندہ ہے، فلسطینی اپنی قوت ارادی کے ذریعے زندہ ہیں۔ جب حماس نہیں تھی تب بھی اسرائیلی ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے رہے۔ یاسر عرفات کی کرپٹ سیاسی پارٹی الفتح نے اس وقت بھی مکھی تک نہیں ماری اور نہ اب مار سکتے ہیں۔جب اسرائیل نے غزہ سے یہودی آبادیوں کو منہدم کیا تھا اور تمام یہودیوں کو وہاں سے نکالنے کا اعلان کیا تھا اس وقت یہ واضح تھا کہ وہ اندھا دھند فضائی بمباریوں کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔
زمین پر اتر کر دو، دو ہاتھ کرنے کی تو ہمت ہے نہیں، صرف فضا سے آگ برسا سکتے ہیں۔اسرائیل کی یہ جنگ بھی 2006ء کی حزب اللہ کے خلاف جنگ کی طرح ناکام رہی۔ 33 روز کی بمباری کے بعد اسرائیل نے خود ہی جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہاں 18 روز کے بعد بھی فلسطینیوں کے عزم میں اضافہ ہوا کمی نہیں۔ اسرائیلی جرنیلوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ فلسطینیوں نے خودکش حملے کئے ہیں۔ ان میں عورتیں بھی شامل ہیں، بعض اسرائیلی فوجیوں کے بھیس میں آئے۔حماس فلسطینیوں کے احتجاج کا نام ہے کل کوئی اور نام آ جائے گا، پرسوں کوئی اور۔ آپ ایک قوم پر بم تو برسا سکتے ہیں لیکن اس پر اپنے پٹھو مسلط نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت کرنے کے لئے پٹھو کو بھی گود سے اتار کر زمین پر کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ چلئے غزہ میں حماس کے مبینہ دفاتر کو تباہ کر دیا گیا لیکن وہاں اقوام متحدہ کے دفاتر پر اقوام متحدہ کا جھنڈا نظر نہیں آیا؟ یہ ایجنسی تو ریلیف کا کام کر رہی تھی۔
اسرائیل نے روز اول سے ہی براک اوبامہ کا صبر آزمانے کے بجائے جنگ بندی کر دی۔ امید ہے کہ صدر اوبامہ غزہ کی تعمیر نو پر توجہ دیں گے اور اسرائیل کی سرزنش نہیں ہو گی کیونکہ اس نے یکطرفہ جنگ بندی کر دی ہے۔ صدر اوبامہ اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے سابق سینیٹر GEORGE MITCHEL کو مشرق وسطیٰ کے لئے خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ ایسے بہت سے ایلچی مقرر ہو چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اوبامہ صاحب کی دھاک کتنی ہے؟ خیر اتنی تو ہے کہ ان کے صدر بننے سے پہلے ہی جنگ بند ہو گئی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں کسی بھی کامیابی کے لئے ایران کا کردار ناگزیر ہے۔ صدر اوبامہ پہلے ہی ایران سے بات چیت کے آغاز کا اشارہ دے چکے ہیں لیکن فلسطینیوں کے حامی مسلمان ممالک یہ دیکھیں گے کہ اس میں فلسطینیوں کا کیا فائدہ ہے۔ علاقے کا کیا فائدہ ہے اور خود انفرادی طور پر ان کا کیا فائدہ ہے؟ اگر فائدہ صرف اسرائیل کا ہے تو پھر یہ تنازع جاری رہے گا۔