کشمیر کی تحریک آزادی کچلنے کیلئے اس نے گزشتہ دو عشروں کے دوران بار بار اسرائیل کی مدد طلب کی اور اس کے اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جو اس نے فلسطینی عوام کے خلاف آزمایا ہے تاہم یہ مشورے بھارت کو زیادہ راس نہیں آئے اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اسرائیلی مشوروں پر عمل درآمد سے تحریک میں مزید شدت پیدا ہوئی، تاہم بھارت کا اب بھی یہ خیال ہے کہ وہ اسرائیل کے تجربے اور مشورے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے-
اسی وجہ سے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے فوجی سربراہ اوی میزراہی نے کشمیر کا دو روزہ دورہ کیا، وہ یہ موازنہ کرنے آئے تھے کہ غزہ کی پٹی کی طرح کشمیر کی وادی بھی اقتصادی ناکہ بندی کے نتیجے میں بھوک اور تنگ دستی سے کراہ رہی ہے، یہاں کی جاں بلب زندگی میں ابھی زندگی کی کوئی رمق باقی ہے.تاہم اسرائیلی فوج کے چیف اوی میزراہی کو اس وقت بڑی حیرانی بلکہ پریشانی لاحق ہوئی جب اس نے دیکھا کہ اسرائیل کے آزمائے ہوئے نسخے نے کشمیر میں کام نہیں کیا اور کشمیر میں ’’ہم کیا چاہتے ہیں آزادی‘‘ ’’آزادی کا مقصد کیا لاالہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ پوری قوت سے گونج رہا ہے-
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب اسرائیلی فوجی چیف مقبوضہ جموں و کشمیر کے دورے پر آیا ہو، گزشتہ سترہ برسوں میں متعدد بار اسرائیلی فوجی سربراہ جموں و کشمیر کا دورہ کرچکے ہیں- گزشتہ برس جون میں اسرائیلی فوج کے ڈپٹی چیف موشے کپلنسکی بھی وادئ کشمیر کا دورہ کرچکے ہیں- اسرائیلی فوجی دماغ جموں و کشمیر میں جاری تحریک کو دبانے اور کچلنے میں بھارتی پالیسی سازوں کو مشورہ دیتے رہے ہیں-
اس مشاورت کی روشنی میں تحریک کا خاتمہ کرنے کیلئے بھارتی فوج وہی حربے استعمال کرتی رہی جو اسرائیلی فوج تحریک اسلامی فلسطین کو کچلنے کیلئے آزما رہی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی حربہ اور ہتھکنڈہ سود مند ثابت نہیں ہوسکا- اسرائیلی فوج نے بھارتی فوج کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا، بالخصوص جنگ بندی لائن پر ایسے آلات کی تنصیب جو مجاہدین کی نقل و حمل کا پتہ لگانے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں، اسرائیل نے ہی بھارت کو فراہم کیے- ان آلات میں انتہائی قیمتی نائٹ ویژن ڈیوائسز قابل ذکر ہیں- جنگ بندی لائن پر خاردار تار کی تنصیب بھی اسرائیل کی دیوار فارمولے کا پر تو ہے-
بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کی بنیاد اگرچہ بھارت کے سابق وزیر اعظم آنجہانی نرسمہارائو کے دورہ حکومت میں اس وقت باضابطہ طور پر رکھی گئی جب نرسمہاراؤ حکومت نے اسرائیل کے سفارتی تشخص میں اضافہ کرتے ہوئے دہلی میں اسرائیلی نمائندے کو سفیر کا درجہ دے دیا- اس سے قبل بھارت میں اسرائیلی نمائندہ قونصلر کہلاتا تھا- 2003ء ء کے وسط میں جب اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا تو بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو ایک نئی قوت ملی، ایریل شیرون کے دورے کے دوران اسرائیل اور بھارت نے کئی دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے اور عسکری ساز و سامان خریدنے کے کروڑوں ڈالرز کے سودے طے پائے-
ستمبر 2003ء میں بھارتی حکومت نے بھارت اسرائیل تعلقات کے فروغ کے حوالے سے ورلڈ جیوش کانگریس کے صدر لزی لبلرل کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ’’مہاتما گاندھی ایوارڈ‘‘ دیا-
لزی لبلرل نے اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ میں یہودیت اور ہندو قوم پرستی کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے ایک اہم مضمون تحریر کیا جس میں انہوں نے خاص طور پر لکھا کہ اسرائیل اور بھارت دونوں اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس لیے دونوں کو اس جنگ میں ایک دوسرے کا مکمل طور پر ساتھ دینا چاہیے- ایک اسرائیلی رپورٹ کے مطابق ہر سال دس ہزار سے زائد اسرائیلی سیاحوں کے روپ میں بھارت کا دورہ کرتے ہیں-
جن میں اکثریت ان اسرائیلی فوجی جوانوں کی ہوتی ہے جو فوجی تربیت کے مراحل سے تازہ تازہ فارغ ہوتے ہیں- اس وقت اسرائیل میں ساٹھ ہزار سے زیادہ ایسے یہودی آباد ہیں جو بھارت سے گئے ہوئے ہیں- یہ یہودی دیگر یہودیوں کے برعکس اپنے سابق ملک بھارت کے بارے میں نہایت جذباتی ہیں اور وہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے کوشاں ہیں-
دو سال قبل بھارتی ائیر چیف نے اسرائیل کا دورہ کیا، اس دوران بھی کئی دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے گئے- بھارتی بحریہ کے سربراہ بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں- بھارتی نیوی نے اسرائیل سے بڑی تعداد میں ریڈار اور آبدوازیں خریدی ہیں- بھارت کی بری فوج نے بھی اپنی انفنٹری بٹالین کیلئے کئی ہزار کروڑ روپے کے عوض اسرائیل سے سازوسامان خریدا، اس کے علاوہ 299 کروڑ روپے کی لاگت سے بھارت نے اسرائیل سے کاؤنٹر امپروائزڈ ایکسپلیسو ڈیوائسز خریدے ہیں-
بھارت اور اسرائیل دونوں فضاء سے زمین پر مارکرنے والے میزائل کی تیاری میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں- دفاعی شعبوں میں دونوں ممالک میں گہرا تعاون جاری ہے، اسرائیلی فوجی سربراہ کا حالیہ دورہ سری نگران کے گہرے تعلقات کا اظہار ہے لیکن کشمیر کی تحریک آزادی اب اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ بھارت اسرائیل چھوڑ ساری دنیا کی مدد حاصل کرلے وہ اس کو ختم نہیں کرسکتا-
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت نے تقسیم کشمیر کی سازش کو عملی شکل دینے کی سازش شروع کررکھی ہے، گزشتہ ایام میں جس طرح وادی کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی اور پھر جموں کے ہندوؤں کو وادی کے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مظاہروں کی ترغیب دی گئی، اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بھارت اندر ہی اندر کسی گہری سازش پر عمل پیرا ہے، سرکاری سرپرستی میں حالیہ ایام میں جموں کے انتہاء پسندوں نے وادی کی اقتصادی ناکہ بندی کا مکروہ کام کیا جس کی وجہ سے وادی و کشمیر میں بھی جموں کے خلاف اشتعال پیدا ہوا، اس کی وجہ سے کشمیر کے تاجروں نے جموں کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا-
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ڈاکٹر مبین شاہ نے بتایا کہ کشمیر کے لوگ جموں کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنا نہیں چاہتے تو ہم کس طرح لوگوں کے جذبات کو نظر انداز کرسکتے ہیں- ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی ناکہ بندی سے وادی کے لوگوں کو شدید صدمہ ہوا اور اس کی معیشت پر گہری ضرب لگی- اس کے سبب وادی میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قلت پیدا ہوئی، اسی لیے اب کشمیری جموں والوں کے ساتھ تجارت نہیں کرنا چاہتے- وادی کے تاجروں نے گزشتہ دنوں دوائوں سے لدے دو ٹرکوں کو واپس جموں بھجوادیا- حقیقت یہ ہے کہ دو ماہ کی اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے جموں کے ہندوؤں نے وادی کشمیر کے مسلمانوں کو سبق سکھانے کی کوشش کی تھی لیکن کشمیری قوم کے اتحاد نے اسے ناکام بنادیا، کشمیریوں نے بھوکا پیاسا رہ کر بھی تحریک آزادی کو زندہ رکھا اور جموں کے ہندوؤں کو منہ کی کھانا پڑی-
گزشتہ چند سالوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں کا سلسلہ کچھ تھم گیا تھا، اس کا سبب یہ تھا کہ تحریک آزادی کا گراف خاصا گر گیا تھا،- اس کی وجہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی تھی جس نے کشمیری عوام میں گہری مایوسی پیدا کردی، اس پالیسی سے خیر کا پہلو یہ برآمد ہوا کہ کشمیری عوام نے اپنی تحریک کے مزاج، طریقہ کار اور رنگ کو بدل ڈالا، اس میں سے عسکریت کو نکال دیا، اس لیے کہ بین الاقوامی سطح پر جائز عسکری جدوجہد کے ڈانڈے بھی دہشت گردی سے جوڑے جارہے تھے اور موجودہ حالات میں اس کا کشمیری عوام سے زیادہ بھارت کو فائدہ تھا، اس لیے انہوں نے اپنی جدوجہد کو کلی طور پر تشدد سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا، پھر انہوں نے پاکستانی حکمرانوں کا رویہ بھی دیکھ لیا، جو موقع آنے پر پیٹھ دکھانے سے دریغ نہیں کرتے اور پاکستانی قوم کے بجائے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں، چنانچہ کشمیریوں نے باہر دیکھنے کے بجائے تحریک کو اپنے زور بازو سے چلانے کا فیصلہ کیا-
اس کا مظاہرہ ہم نے گزشتہ چند ماہ کے دوران دیکھا- سری نگر کی تاریخی عید گاہ میں اٹھارہ لاکھ کا اجتماع کشمیر کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا- گزشتہ ساٹھ برس کے دوران اس طرح کا کوئی غیر معمولی اجتماع کشمیر کے سورج نے نہیں دیکھا- یہ ایسا مظاہرہ تھا جس سے نئی دہلی کے ایوان لرز اٹھے، عوامی قوت کا مقابلہ ایک بار پھر ظلم و جبر، تشدد اور قتل و غارت اور گرفتاریوں سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا- چنانچہ حالیہ دنوں میں ساٹھ کے لگ بھگ کشمیری بھارت کی ظالم فوج کی بھینٹ چڑھ گئے- یہ سب نہتے، پرامن اور غیر مسلح تھے، صرف ان کی زبان کھلی تھی، جس پر نعرہ آزادی جاری تھا- اسے سن کر قابض فوج کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ان کو گولیوں کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا گیا-
دوسری طرف تحریک کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بدنام زمانہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت گرفتاریوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے- اب تک سینکڑوں افراد کو چن چن کر اس ایکٹ کے تحت گرفتار کرنے کے حوالہ زنداں کیا گیا ہے اور مزید گرفتاریاں بھی کی جارہی ہیں- اس کالے قانون کے تحت یہ گرفتاریاں محض بوکھلاہٹ ہیں- ورنہ بھارتی حکومت اور فوج کو چاہیے تھا کہ وہ کشمیری عوام کو پرامن جلوس نکالنے اور اجتماعات پر خراج تحسین پیش کرتی- ملین کے جلوسوں نے کسی اقلیت کو چھوا نہ کسی سرکاری عمارت کو آگ لگائی- پولیس اور سی آر پی ایف نے انہیں بار بار مشتعل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، حالانکہ یہ عوامی سیلاب دہلی کے مسلط کردہ حکمرانوں سمیت سب کچھ بہالے جاتا لیکن اس نے تحریک کو جمہوری انداز میں چلایا-