جمعه 15/نوامبر/2024

باراک اوباما نے اپنے خطاب کے لیے قاہرہ کا انتخاب کیوں کیا ؟

جمعرات 4-جون-2009

امریکہ کے صدر اوباما آج مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچ رہے ہیں- اس سے پہلے وہ گزشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سعودی فرمانروا سے مذاکرات کرچکے ہیں- اگرچہ ان کادورۂ سعودی عرب بھی اہمیت رکھتا ہے اور سعودی فرمانروا کے ساتھ ان کے عرب اسرائیل تنازع، تیل کی قیمتوں اور ایران کے ساتھ متوقع سفارتی مہم جوئی پر مذاکرات ہوئے لیکن ساری دنیا کی نظریں ان کے اس خطاب پر مرکوز ہیں جو وہ آج قاہرہ یونیورسٹی کے گنبدوں والے ہال سے مسلم دنیا سے کریں گے-
 
وہ اہرام مصر اور مسجد سلطان حسن دیکھنے بھی جائیں گے، مصر کی اہمیت امریکہ کے لیے مسلمہ ہے، مصری صدر انور السادات عرب دنیا کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے 1978ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کا دورہ کیا- پھر ان کے اسرائیلی وزیر اعظم مناہم بیگن کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں مذاکرات ہوئے اور 1979ء میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کردیئے- دو برس بعد انور سادات کو قاہرہ میں قتل کردیا گیا، حسنی مبارک اس وقت نائب صدر تھے تب انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالا اور اب تک صدر چلے آرہے ہیں-
 
اپنے 28 سالہ عہد صدارت میں حسنی مبارک نے اسرائیل کے ساتھ پرامن تعلقات قائم رکھے ہیں- مصر، اسرائیل کے بعد امریکی امداد کا مستحق سمجھا جانے والا دوسرا بڑا ملک ہے- ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امریکی امداد مصر کو ملتی ہے- اس امداد کے باوجود مصر کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارتی ہے- قاہرہ کو عرب دنیا کے مرکز دانش کی حیثیت حاصل ہے اور عرب ملکوں کی سیاست کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے، مصر کی نہر سویز سے دنیا کا پچیس فیصد تیل گزرتا ہے، برسراقتدار آنے کے بعد حسنی مبارک مسلسل وقفوں وقفوں سے ریفرنڈم میں صدر منتخب ہوتے رہے-

2005ء کے الیکشن میں ایک امیدوار ایمان نور ان سے دوسرے نمبر پر ووٹ لے گیا، اس میں بھی اگرچہ حسنی مبارک جیت گئے لیکن ایمان نور کی ہر دلعزیزی سے خوفزدہ ہو کر انہیں تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا- الیکشن والے دن پولیس نے پولنگ سٹیشنوں کا راستہ روکا اور ایسے لوگوں پر لاٹھی چارج کیا جن کے متعلق خدشہ تھا کہ وہ حکمران جماعت کے خلاف ووٹ دیں گے- ایمان نور کا کہنا ہے ’’میرا خواب ہے کہ میرے بچے اور پوتے کسی دن آزاد مصر میں رہ رہے ہوں گے-

‘‘ نور ان بہت سے لوگوں میں سے ہیں جن کا خیال ہے کہ مصر میں صدر اوباما کی موجودگی صدر حسنی مبارک کے متشددانہ اقتدار کی تائید کے مترداف ہے- ’’میرا خیال ہے قاہرہ میں خطاب کر کے وہ ایک ایسی متشدد حکومت کی تائید کررہے ہوں گے جس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے-‘‘ مجھے امید ہے ’’اوباما یہاں تبدیلی کے لیے کام کریں گے-‘‘ امریکہ کے نئے لیڈر اوباما نے ساری مسلمان دنیا میں لوگوں کی توقعات کا درجہ بڑھادیا ہے اور اب وہ ایک آدمی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں- دورے کے آغاز میں سعودی عرب کے اخبار ’’عرب نیوز‘‘ نے لکھا: ’’یہ بہت واضح ہے کہ سعودی عرب کے لوگ  بوڑھے اور جوان  مرد اور عورتیں  سعودی باشندے اور باہر سے آئے ہوئے لوگ  سب یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ صدر اوباما ان وعدوں کو پورا کریں گے جو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے- اب ان الفاظ کو عملی شکل دینے کا وقت آپہنچا ہے-‘‘

قاہرہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد کمال نے کہا ہے کہ ’’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک امریکی صدر ایک مسلمان ریاست کے دارالحکومت میں آرہے ہیں اور وہاں سے ایک خطاب کرنا چاہتے ہیں  ایک ایسی تقریر بظاہر جس کا مقصد مسلمان دنیا کے ساتھ مفاہمانہ تعلقات قائم کرنا ہے-‘‘

تاریخ دان اور سعودی ’’شوری کونسل‘‘ کے رکن محمد عبد اللہ الزلفا کا کہنا ہے کہ عرب، اسرائیل کو مزید کیا دے سکتے ہیں جبکہ اسرائیل اب تک فلسطین میں دو ریاستوں کے نظریے کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، اگرچہ سعودی باشندے، قیام امن کی جانب پیش رفت کو سرے سے ہی مسترد تو نہیں کرتے لیکن ان کا کہنا ہے کہ قیام امن کے لیے وہ پہلے ہی بہت زیادہ رعائتیں دے چکے ہیں- 2002ء میں بیروت (لبنان) میں عرب لیگ کے رکن ممالک کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ 1967ء کی سرحدوں پر واپس چلا جائے اور فلسطینی مہاجرین کے ’’منصفانہ حل‘‘ پر متفق ہو جائے-

مڈل ایسٹ سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ لیگل سٹڈیز ریاض کے ڈائریکٹر انور مجید عشقی نے کہا کہ صدر اوباما اپنے بقول مشرق وسطی کا دورہ عرب اسرائیل تنازعہ ختم کرانے اور مسلمان دنیا میں امریکہ کا امیج بہتر بنانے کے لیے کررہے ہیں- دوسرے معاملات میں جو سعودی حکومت کے ساتھ زیر بحث آئے، ان میں علاقے میں ایرانی اثر و رسوخ میں اضافہ بھی شامل ہے-
 
سعودی عرب اور مصر میں حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے مشرق وسطی کے ایجنڈے پر پہلے ہی کچھ پیش رفت کی ہے جس سے یہ اعتماد پیدا ہوا ہے کہ صدر اوباما مشرق وسطی کے تنازعے کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں- خیر سگالی کے اس جذبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے صدر اوباما کی ہر اس تجویز پر غور کیا جائے گا جو وہ پیش کریں گے- لیکن اسرائیل کے معاملے میں عرب ممالک کا مؤقف یہ ہے کہ اب اس کی جانب سے کچھ حاصل کیے بغیر اسے مزید کچھ رعایات نہیں دی جاسکتیں اور جو بھی فیصلے ہوں گے، ان پر عرب لیگ کے تمام ملکوں کو متفق ہونا چاہیے-

مصری وزارت خارجہ کے ترجمان سفیر حسام ذکی نے کہا کہ ہم ہر چیز کو اسرائیلی فیصلوں اور ان کے اقدامات کی روشنی میں جانچیں گے- اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسرائیل اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتا اور معاملات کو درست سمت میں نہیں لے جاتا تو اس بات کا امکان کم ہے کہ عرب ملک کسی تجویز کا جواب دیں گے- ایک سعودی افسر کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل اپنے اقدامات سے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا عندیہ دیتا ہے تو عرب ممالک قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے والی تجاویز پر غور کے لیے تیار ہوں گے- ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ کا انحصار اس بات پر ہے کہ ’’اسرائیل عربوں کو کیادیتا ہے‘‘ جبکہ اسرائیلی کہتے ہیں کہ ’’ہم نے ایک راستہ کھولا ہے، آئیں اور آپ بھی ایک راستہ کھولیں، راستہ بند نہ کریں- یہ مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کی جانب بڑھیں-

‘‘ مصر میں تجزیہ نگاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں ماحول ایسا ہے جسے ’’شکوک و شبہات میں لپٹی ہوئی امید پرستی‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے، کسی کو بھی اسرائیلی عرب تنازعے میں کسی حتمی پیش رفت کا یقین نہیں لیکن اتنا تو ہے کہ امریکی صدر اسرائیل کی ایک جگہ رکی ہوئی آبادکاری پالیسی کو ہدف تنقید بنارہے ہیں اور چونکہ ان کی ذاتی ہر دلعزیزی مقابلتاً زیادہ ہے- اس لیے امید پسندی کا عنصر موجود ہے- عرب لیگ میں سعودی عرب کے سفیر احمد کتان نے کہا ’’میرے خیال میں ہمیں صدر اوباما سے کسی مثبت بات کو سننا چاہیے- وہ صحیح سمت میں جارہے ہیں-‘‘

 
بشکریہ پاکستان

لینک کوتاه:

کپی شد