اہل فلسطین جتنے تنہا آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ اس تنہائی میں انہیں مقتل میں اترنے کی ترغیب دینا کیا ان کے ساتھ اظہار ہمدردی ہے؟ آج دنیا میں کوئی ایک ریاست ایسی نہیں جو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہو۔ صدر ٹرمپ کے ایک اعلان پر منفی رد عمل کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ دنیا نے فلسطینیوں کے حق کو اس طرح تسلیم کرلیا ہے جیسے وہ بیان کرتے ہیں۔ اسرائیل کے وجود کے بارے میں اگر پہلے دو آراء تھیں بھی تو اب عملا ایک ہی رائے ہے۔ کوئی زبان قال سے قبول کرچکا اور کوئی زبان حال سے۔ نادان دوستوں نے آج فلسطین کو دشت حیات میں بے اماں کھڑا کردیا ہے۔ اس پر وپہ بضد ہیں کہ وہ اس دشت کو مقتل بنا دیں۔ جب صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تو اس سے پہلے فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہےکہ شہزادہ محمد بن سلمان نے انہیں بتا دیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
ٹرمپ صاحب کے داماد پہلے عرب ریاستوں کو اعتماد میں لے چکے تھے۔ استنبول میں مسلمان حکمرانوں کی سرد مہری سے بھی واضح ہے کہ فلسطین کے حوالے سے عالم اسلام کی گرم جوشی دم توڑ چکی۔ آج مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں اور ان کی دلچسپی اپنی جغرافیائی سرحدوں تک محدود ہے، سب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
افراد کے درمیان اجتماعیت کی اساس ہمیشہ ایک نہیں رہتی۔ یہ تاریخٰی عوامل کے تابع ہے۔ کبھی رنگ، کبھی نسل ، کبھی جغرافیہ، کبھی مذہب۔ اس کا تعلق سیاسی تنظیم سے بھی ہے۔ قبائلی معاشرت کےدور میں اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ سلطنتیں وجود میں آئیں تواس کی صورتیں تبدیل ہوگئیں۔ قومیں ریاستوں نے اجتماعیت کو ایک نئی اساس فراہم کردی۔ آنے والے دونوں میں شاید قومی ریاستیں باقی نہ رہیں۔ لوگ ایک گلوبل ویلج کے شہری قرار پائیں۔ اس وقت اجتماعی شناخت بھی بدل جائے گی۔ آج ہم قومی ریاستوں کےدور میں زندہ ہیں۔ اس میں مذہب کو اجتماعی سیاسی شناخت کے طور پرقبول نہیں کیا گیا۔ اس میں صرف ایک استنثیٰ ہے اور وہ اسرائیل کا ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ جب لوگوں نے نئے عالمی نظام کی صورت گری کی۔ وہ مذہب کو اجتماعیت کی اساس نہیں مانتے، لیکن انہوں نے اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ یہودیوں کا ایک وطن ہونا چاہیے۔
انہوں نے دنیا بھر کے یہودیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ فلسطین میں جمع ہوں اور پھر انہیں اسرائیل کے نام سے ایک ملک دے دیا۔ جب نئی سیاسی قوتوں نے مذہب کو اجتماعی سیاست کی اساس مان لیا تودیگر مذہب کے علم برداروں میں بھی یہ تحریک پیدا ہوئی کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو اساس مانتے ہوئے مذہبی ریاستیں بنائیں۔ مسلمان اس میں سر فہرست تھے۔ اس کا فلسطینیوں کو نقصان بھی پہنچا۔ ان کی قومی جدو جہد کو جب مذہبی شناخت دی گئی تو پی ایل او کم زور ہوئی جو فلسطینی قوم کی بنیاد پرآزادی وطن کی تحریک چلا رہی تھی۔
وہ مسیحی فلسطینی اس جدو جہد سے غیر متعلق ہوگئے جو پی ایل او کے محاذ کے سرگرم تھے۔ آج شاید ہی لوگوں کو یاد ہو کہ معروف فلسطینی مجاھدہ لیلیٰ خالد ایک مسیحی تھیں۔ عالمی قوتوں کے اس مروجہ تصور ریاست سے اسرائیل کی صورت میں جو انحراف ہوا اس کی ایک قیمت ساری دنیا کو ادا کرنا پڑی، سب سے زیادہ فلسطینیوں کو۔
ان کے لیے ان کی اپنی ہی سرزمین سکڑتی چلی گئی۔ دو ریاستی تصور سے اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ ان کا ملک تو ہوگا، اب اس کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
یروشلم ساری دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ علاقہ ہے۔امریکی اعلان سے اس بات کا امکان کم وبیش ختم ہوگیا کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں سے پہلے کی سرحدوں کی طرف لوٹ جائے گا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ اسرائیل کی سرحدیں پہلے سے زیادہ پھیل جائیں گی۔ اسرائیل کا وجود ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپی قوتوں کا مرہون منت ہے۔ یہاں پیش گوئیوں کا بہت ذکر رہتا ہے۔ اس باب میں ایک پیش گوئی وہ ہے جو قرآن مجید نے کی ہے۔ اس حضرت مسیح سے یہ کہا گیا ہے کہ یہود قیامت تک آپ کے ماننے والوں کےرحم وکرم پر رہیں گی۔
اس سے واضح ہے کہ جس دن امریکا اور یورپی قوتوں نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ اسرائیل کا وجود قائم نہیں رہے۔ یہ وقت ائے گا یا نہیں یا کب آئے گا۔ یہ کہنا مشکل ہے۔
اس باب میں ایک اوربات بھی ہماری توجہ چاہتی ہے۔ یہاں بعض لوگ یہ تاثر دیتے ہیں ساری دنیا کےیہودی صہیونی ہیں اور اسرائیل کے حامی ہیں۔ یہودیوں میں بہت سے لوگ لبرل ہیں۔ وہ کسی مذہبی پیشگوئی کو نہیں مانتے۔ امریکا میں یہ لوگ متحرک ہیں اور اسرائیل کےخلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان میں نوم چومسکی کا نام نمایاں ہے جو یہودی کے باوجود اسرائیل کےخلاف ہیں۔ فلسطینیوں کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلح جدو جہد سے گریز کرتے ہوئے سیاسی جدو جہد کا راستہ اپنائیں اور دو ریاستی حل کے لیے یکسو ہوجائیں۔ اسرائیل کا خاتمہ اس وقت ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مسلح جدو جہد اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے، جب سرحدوں کے پار سے کوئی حمایت یا تائید میسر ہو۔
اہل فلسطین کے لیے یہ راستہ بند ہوچکا۔ صدر ٹرمپ کے اعلان پر عرب دنیا کی سرد مہری سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس کےبعد بھی اگر وہ مسلح جد وجہد کا راستہ اپنائیں گے تو متاع جسم وجاں گنوانے کے سوا انہیں کچھ نہیں ملنے والا
افسوس کہ گذشتہ پانچ دھائیوں سےمسلمانوں کو ایک ایسے راستے پرڈالا گیا جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ جہاد کے تصور کومسخ کیاگیا اور اسے حکمت و بصیرت سےعاری ایک خیال کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسےایک تعمیری قوت کے بجائے فساد کی علامت بنا دیا گیا۔
اللہ کے نصرت کے قانون کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے لوگوں کو تیغ کے بغیر لڑنے کادرس دیا گیا اور اسے مومن ہونے کی نشانی بتایا گیا۔
اہل فلسطین کو اس حال تک پہنچانے میں اس مسلح جدو جہد کا بہت حصہ ہے۔ طیب ایردوآن نے ترکی کا سفارت خانہ مشرقی یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ جیسے انہوں نے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا علاقہ تسلیم کیا ہے۔ میرے نزدیک اس کا نتیجہ اس کے برخلاف نکلے گا۔ وہ اسرائیل میں ترکی کے سفارت خانے خانے اگر مشرقی یروشلم منتقل کریں گے تو یہ ترکی کی طرف سے اس بات کا اعلان ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ سمجھتےہیں۔ اس پر بالفعل بھی اسرائیل ہی کا قبضہ ہے۔
مسلمانوں کو شعوری طور پراعتراف کرنا ہوگا کہ وہ قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں۔ امت مسلمہ کے نام سے کوئی سیاسی وجود دنیا نہیں پایا جاتا۔ یہ عملا واضح ہوچکا کہ کوئی مسلمان ریاست اہل فلسطین کی مدد نہیں کرسکتی۔ اسلامی تحریک کو بھی فلسطینیوں کو بھی وہی بات سمجھانی چاہیے جو زمینی حقائق کے مطابق ہے۔ فلسطینی بچوں کی لاشوں کو بے رحمی کے ساتھ جذباتی استحصال کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ فلسطینیوں کا حقیقی خیر خواہ وہی ہے جو بچوں کو اسرائیلی وحشت اور ظلم سے بچائے۔ فلسطینیوں کی ان کی اپنی سرزمین دن بہ دن سکڑتی جا رہی ہے۔ عربوں نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اب تو شاید ماضی کی طرح انہیں کوئی پناہ گاہ بھی نہ دے سکے۔ یہ ایک تلخ حقیقیت ہے لیکن حقیقت ہے۔ اس سے آبکھیں چار کرنا پڑیں گی۔ سعودی عرب کا مسئلہ ایران ہے اور ایران کا سعودی عرب۔ فلسطین کسی کا مسئلہ نہیں۔ یہی بات فلسطینیوں کو سمجھنا ہوگی۔