جمعه 15/نوامبر/2024

امریکی صدارتی امیدواروں کی فلسطین کے بارے میں دروغ گوئیاں

پیر 25-اپریل-2016

اگرچہ۲۰۱۶ کے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم میں کسی امیدوار نے طے شدہ پالیسی کے تحت اسرائیل کے لئے لامحدود امریکی امداد پرسوال نہیں اٹھایا مگر اسرائیلی لابی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود حال ہی میں فلسطین ـ اسرائیل تنازعہ ری پبلیکن امیدواروں کے اسٹیج پر ابھرنا شروی ہوگیا ہے۔ قدامت پسندوں کے پلیٹ فارم پر اس تنازعہ کی بازگشت سنائی دینے کی وجہ متنازعہ موضوعات کو چھیڑنے کے لئے بدنام  امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے عہد کیا ہے کہ منتخب ہونے کے بعد وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے قیام کے لئے غیرجانبدار بروکر (مصالحت کار) کا کردار ادا کریں گے۔

ٹرمپ کے بیان نے ری پبلکن پارتٹی میں ان کے مخالف امیدواروں کو ان پر حملے کرنے کے لئے موقع اور درکار مواد فراہم کر دیا ہے۔ ان کے تینوں مخالف امیدواروں، ٹیڈ کروز، مارکو روبیو اور جان کاسچ نے خوفناک حد تک مضبوط اسرائیلی لابی کے فراہم کردہ دلائل کو ٹرمپ کے خلاف پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سر فہرست نکتہ یہ ہے کہ تمام فلسطینیوں کو جنونی اور متوقع خود کش بمبار قرار دینے کی تکرار جاری رکھی جائے۔

ان کے قریب ترین حریف ٹیڈ کروز نے جواباً کہا ’ اس معاملے میں غیرجانبداری کا تصور دراصل میڈیا کے پیش کردہ اخلاقی نسبتیت کے نظریے پر مبنی ہے جسے قدامت پسند اندھوں کی طرح بلا تامل قبول کرتے ہیں۔ سنئے، یہ کسی طرح بھی مساوی نہیں ہے۔ ایسے دہشت گرد جو اپنے جسموں پر بارود باندھ کر خود کو اڑاتے ہوں اور بے گناہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرتے ہوں وہ کس طرح اسرائیلی فوجیوں کے برابر ہوسکتے ہیں جو اسرائیل کا دفاع کرتے ہیں۔ اور میں ان کی برابری کا دکھاوا کبھی نہیں کر سکتا۔‘

امریکی سیاستدان اپنی تقاریر میں فلسطینیوں کا یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ تمام فلسطینی یہودیوں کے خون کے پیاسے جنونی قاتل ہوتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل کا تصور اس قسم کے قاتلوں کے درمیان گھری ہوئی امن پسند ریاست کا ہوتا ہے۔ مارکو روبیو نے اپنے جواب میں کہا ،’فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کی جانب سے امن کی تمام پر کشش پیشکشوں کو ٹھکرا چکی ہے۔ فلسطینی اپنے چار چار اور پانچ پانچ سال کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں کو یہودیوں کو مارنا سب سے بڑا کارنامہ ہوتا ہے۔ حماس اسرائیل پر مسلسل راکٹ اور دہشت گرد حملے کرتی ہے۔ غرض یہ کہ فلسطینیوں کی فطرت ہی ایسی ہے کہ ان کے ساتھ اسرائیل کی کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔‘

اسرائیلی لابی کے بیانیہ میں عموماً سنہ ۲۰۰۰ کے ناکام کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کا بڑی شدت سے زکر ہوتا ہے اور اس مبینہ ناکامی کا الزام یاسر عرفات پر لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس مجوزہ معاہدے کو ٹھکرا دیا تھا  جس میں ان کو تمام فلسطینی مطالبات کے نوے فیصد کی پیشکش کی گئی تھی۔ یروشلم میں ایک سابق امریکی سفیر نے اس بے بنیاد الزام کی تردید کرتے ہوئے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ان مزاکرات کی ناماکی کا ذمہ دار عرفات کو قرار دینا سنگین جھوٹ ہے کیونکہ تینوں فریقین نے اس موقع پر غلطیاں کی تھیں اور ایسے پیچیدہ مزاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قرار دینا شدید ناانصافی ہے۔ حتیٰ کہ ان مذاکرات میں اسرائیلی وفد کے سربراہ شلومو بن آمی نے بھی فلسطینیوں پر مذاکرات کی ناکامی کا الزام غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا، ’کیمپ ڈیوڈ حل کو رد کرکے فلسطینیوں نے کوئی سنہری موقع ضائع نہیں کیا تھا۔ اگر میں فلسطینی ہوتا تو میں بھی اس حل کو رد کر دیتا۔‘

اگر فلسطینی امن پسند نہیں ہیں تو پھر غزہ اور مغربی کنارے پر ہونے والے رائے عامہ کے تمام جائزوں میں دو تہائی فلسطینی آبادی اسرائیل کے ساتھ امن مزاکرات کی حمایت کیوں کرتی ہے؟ فلسطینیوں کو امن کیوں نہیں چاہئے؟ ان کے پاس فوج، فضائیہ اور بحریہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بڑی فوجی سپر طاقت ان کی پشت پر ہے۔ اور نا ہی فلسطین نے اسرائیل کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی نومبر ۲۰۱۵ میں امریکہ سے درخواست کی تھی کہ معطل شدہ کثیر جہتی امن مزاکرات کا عمل فی الفور دوبارہ شروع کیا جائے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے سرکردہ معاون حسام زوملوٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا پورا زور  صدر اوباما اور دنیا کو یہ یقین دلانے پر لگا ہوا کہ مسئلہ کی جڑ فلسطینیوں کی اسرائیل سے نفرت ہے۔ حالانکہ بات یہ کہ دوسرے لوگوں کی طرح فلسطینی بھی نا انصافی، اپنی زمینوں پر قبضے اور کئی دہائیوں پر محیط ان کے بنیادی حقوق کی پامالی سے نفرت کرتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی درخواست کو نیتن یاہو نے رد کر دیا تھا جبکہ صدر اوباما نے اسے بالکل ہی نظرانداز کر دیا تھا۔

فلسطین میں جاری تشدد کی حالیہ لہر کے پیچھے اوسلو معاہدے کے بعد پیدا ہونے والی وہ نسل ہے جس کے پاس امن مزاکرات کے قطعی لاحاصل ہونے کا یقین کرلینے کے کئی جواز ہیں۔ امریکی ثالثی کے تحت تین دہائیوں سے جاری امن مزاکرات کے نتیجے میں نہ صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی بلکہ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے، فلسطین کو اسرائیلی نو آبادی بنانے اور فلسطینیوں کی منظم نسل کشی روکنے کے لئے بھی کوئی اقدام نہ کیا جاسکا۔ اوسلو معاہدے کے بعد سے غزہ اور مغربی کنارے پر یہودی نوآبادکاروں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے سات لاکھ ہوچکی ہے۔ ان تمام شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی نہیں بلکہ یہ دراصل اسرائیلی ہیں جو امن کے دشمن ہیں اور امن کو رد کرتے ہیں۔

ایک حالیہ عوامی جائزے میں پتہ چلا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کی پچاس فیصد تعداد کا خیال ہے کہ تمام عربوں کو اسرائیل سے بے دخل کر دینا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کے آدھے یہودی مقبوضہ فلسطین سے عرب مسلمانوں کی نسلی صفائی چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۸ میں ہونے والے ایک اور جائزے میں معلوم ہوا تھا کہ ۶۴ فیصد اسرائیلی یہودی فلسطینی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ یہ واضح رہے کہ یہ جائزہ دوسرے انتفاضہ کے ختم ہونے کے تین سال بعد کیا گیا تھا جس دوران کوئی بم دھماکہ یا حملہ نہیں ہوا تھا۔

 تیزی سے بڑھتی ہوئی منظم یہودی آبادکاری اور اس کے نتیجے میں اسی تناسب سے بڑھتی ہوئی سیاسی خلیج کے دباو کے تحت اسرائیلی حکومت کی زبان امن اور فلسطینیوں کے بارے میں مزید سخت اور نفرت انگیز ہوتی جارہی ہے۔ نیتن یاہو واشگاف انداز میں کہ چکے ہیں کہ ان کی موجودگی میں تنازعے کا دو ریاستی حل کبھی نہیں ہوسکتا۔ اسرائیلی وزیر تعلیم نفتالی بینیٹ نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے تمام علاقہ پر سرکاری طور پر قبضہ کر لے۔ اسرائیلی وزیر انصاف زپی لونی نے تو تمام اخلاقی اور سیاسی حدود عبور کرتے ہوئے تمام فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

نامور آئرش سفارتکار، مورخ اور مصنف پاڈرگ او مالے جنہوں نے شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان امن سمجھوتے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور منقسم معاشروں کے خلفشار اور رجحانات پر کتابیں بھی لکھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اسرائیلی آبادی کا تیزی سے بدلتا ہوا نسلی اور مزہبی تناسب یہ اشارہ کر رہا ہے کہ مستقبل کا اسرائیل فلسطینیوں کی دشمنی میں بہت ذیادہ متشدد ہوگا۔ آنے والا اسرائیل عربوں اور فلسطینیوں سے نفرت کے اظہار میں زیادہ متشدد، ذیادہ قوم پرست، ذیادہ انتہا پسند، جمہوری اقدار سے ذیادہ بیزار، عدم برداشت پر ذیادہ کاربند، اور دفاعی اداروں کے سوا دیگر اداروں پر بہت کم بھروسہ کرنے والا ہوگا۔

کیمپ ڈیوڈ مزاکرات کی ناکامی کے بعد اسرائیلی وفد کے ایک اہم رکن اور اسرائیلی داخلی سلامتی کے ادارے کے سابقہ افسر، یوسی گنوسر نے کہا تھا کہ اسرائیلی اس تنازعے کے پر امن حل کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے ہیں کیونکہ اسرائیلی معاشرے نے فلسطینیوں کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور بڑے موثر طریقے سے انہیں انسانیت کے مرتبے سے نیچے گرا دیا ہے۔ ’ہماری حکومتوں نے اسرائیلی عوام کی نظروں میں فلسطینیوں کو بطور انسان اور بطور ایک معاشرہ ان کا جائز مقام کبھی بھی نہیں بننے دیا۔ ایک معاشرہ کے طور پر ہمیں فلسطینیوں انسانوں کی حیثیت سے دیکھنا سیکھنا ہوگا، اور ان کی وہی حیثیت اور حقوق کا تصور کرنا ہوگا جو ہم خود اپنے معاشرے کے لئے چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ابھی تک ہمارا معاشرہ اس چیز کے لئے تیار نہیں ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک اس تنازعے کا کوئی پر امن حل نہیں نکل سکتا۔‘

امن کے قیام میں کون مخلص ہے یہ معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا فائدہ کس کو ہوتا ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے میں ذیادہ محنت نہیں لگتی کہ غزہ کی وسیع و عریض جیل جیسی قید میں محصور اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کو وہاں رہنے کا کوئی اقتصادی اور انسانی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی بیس لاکھ فلسطینی جو مٖغربی کنارے کی مہیب دیوار کے پیچھے قید ہیں ان کو اپنے حالات کو برقرار رکھنے کا کوئی فائدہ ہے۔ اسرائیلی حکمران اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ امن مزاکرات حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں کیونکہ اس طرح اسرائیل کی امن کے قیام سے وابستگی اور اس کی کوششوں کے خلوص پر سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کسی اسرائیلی حکومت نے کبھی بھی مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں پر قبضے یا غزہ کے محاصرے کو ختم کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔

چونکہ امریکی عوام ان دروغ گوئیوں پر یقین کرتے رہیں گے جو ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار فلسطینیوں اور تنازعے کی حقیقی نوعیت کے بارے میں تسلسل سے بولے جاتے ہیں اس لئے کسی امریکی صدر پر کبھی بھی اتنا دباو نہیں ہوگا کہ وہ قیام امن کے لئے ایک مخلص مصالحت کار کا کردار ادا کرسکے۔ 

 

لینک کوتاه:

کپی شد