جمعه 15/نوامبر/2024

امام مسجد اقصیٰ کی آواز سنو!!

پیر 22-مارچ-2010

مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنے کے یہودی منصوبے کے خلاف 19 مارچ 2010ء کو ملک بھر میں یومِ احتجاج منایا گیا ہے۔ اس کی اپیل جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کی تھی۔ انہوں نے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں اور مسلم دنیا کے 58 حکمرانوں سے درخواست کی کہ وہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے بیش بہا قربانیاں دینے والے مظلوم فلسطینیوں کی پشت پر کھڑے ہوجائیں اور مسجد اقصیٰ کی آواز پر لبیک کہیں۔

قارئین! بیت المقدس کی پکار کیا ہے؟ اس پر تبصرے وتجزیے سے قبل القدس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اس کی اہمیت کا قدرے اندازہ ہوسکے۔ ”القدس“ یہ 35 درجہ طول شرقی اور 31 درجہ عرض شمالی پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی 750 میٹر اور بحرمردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 میٹر ہے۔

بحرروم سے اس کا فاصلہ 52 کلومیٹر، بحر مردار سے 22 کلومیٹر اور بحر احمر سے 250 کلومیٹر ہے۔ القدس دُنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ہاں یکساں طور پر متبرک ہے۔ القدس کی جو تاریخ آج کی انسانی دُنیا کو معلوم ہے اس کے مطابق یہ تقریباً 45 صدیاں پرانا شہر ہے۔ یہاں ساڑھے چار ہزار سال قبل عربوں کی ایک شاخ کنعانی اور یبوسی آباد تھے۔ 2500 قبل مسیح انہوں نے یہاں اپنی بستیاں بسائیں اور قلعے تعمیر کیے۔ 1049 قبل مسیح میں حضرت داود علیہ السلام نے اسے فتح کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اسے بہت ترقی حاصل ہوئی۔ 586 قبل مسیح میں یہ اہل فارس کے قبضے میں آ گیا جب بخت نصر نے یہاں یلغار کی۔ یہودیوں کا قتل عام کیا اور جو باقی بچ گئے انہیں غلام بناکر بابل لے گیا۔ فارس والوں کے یہاں پر اقتدار کا سلسلہ اسکندر کے قبضے تک جاری رہا جو 332 ق م میں ہوا۔ 63 ق م میں یہاں رومی قابض ہوگئے۔ ان کے ایک بادشاہ ”ہیبرڈوس“ نے 135ء میں اس شہر کو بالکل تباہ کردیا اور یہاں نیا شہر ”ایلیا کابتولینا“ کے نام سے بسایا۔ یہاں عیسائیت کا دور دورہ تھا۔ قسطنطین بادشاہ کی والدہ ملکہ ھیلانہ نے 335ء میں یہاں وہ مشہور گرجا تعمیر کیا جو ”کنیسة القیامة“ کے نام سے مشہور ہے۔ 614ء میں اہل فارس یہاں دوبارہ قابض ہوگئے اور یہاں کے گرجاؤں اور عبادت خانوں کو لوٹ کر ویران کر دیا۔

القدس کو مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حضرت عمر نے فتح کیا اور پھر عرصہ دراز تک یہ مسلمانوں کے پاس رہا۔ اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں اسے خوب عروج اور ترقی ملی۔ گیارھویں صدی عیسوی میں یورپی عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ کے اچھے سلوک کے برعکس وہ مظالم ڈھائے جو ان کی انسانیت سے دوری، کم ظرفی اور جہالت کی عداوت کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔

مسلمانوں کی کثیر تعداد کو مسجد اقصیٰ میں لاکر ذبح کیا گیا۔ مسجد میں گھوڑوں کا اصطبل بنادیا گیا جسے ”اصطبل سلیمان“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ 80 سال تک صلیبیوں کے قبضے میں رہنے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اسے 1178ء میں دوبارہ فتح کیا اور مسجد اقصیٰ کی تعمیرنو کے ساتھ یہاں مدارس، مکاتب اور اوقاف کاسلسلہ جاری کیا۔ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں دیوارِ براق ہے، یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ مسجد اقصیٰ طویل عرصے تک مسلمانوں کا علمی مرکز رہی ہے۔

مسجد اقصیٰ، گنبد صخرہ، اس کی خوبصورتی، تاریخی اہمیت اور فضیلت پر انگریزی، عربی اور اُردو میں سیکڑوں نہیں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ان کے مطالعے کے بعد غیر جانبدار شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اب اس کی تولیت کے اصل حق دار مسلمان ہی ہیں، لیکن آج سے 94 سال پہلے 1916ء میں ”اعلان بالفور“ کے تحت ایک یہودی ریاست کا منصوبہ پیش ہوا۔ انگریزوں نے 2 فروری 1924ء کو فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ یہاں جو پہلا برطانوی کمشنر آیا وہ ”ہربرٹ سیموئیل“ نامی کٹر یہودی تھا۔ برطانیہ اس وقت عیسائی ہونے کے باوجود یہودی مقاصد کی تکمیل کے لیے پوری طرح آلہ کار بنا ہوا تھا لہٰذا دیدہ دانستہ ایک سازش کے تحت یہاں یہودی کمشنر بھیجا گیا۔ اس نے یہودیوں کے لیے فلسطین کے دروازے کھول دیے۔ امریکا کی صہیونی تنظیموں نے یہودیوں کو یہاں زمینیں خریدنے کے لیے کروڑوں پاؤنڈ دیے۔ رفتہ رفتہ یہودی مضبوط ہوتے گئے۔

آخر کار یہودیوں نے برطانیہ کی سرپرستی میں 1948ء میں اسرائیلی سلطنت کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس کے فوراً بعد جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں غزہ پٹی، نجیب، گیلیلی اور شمال مغربی یروشلم پر اسرائیل نے قبضہ کرکے اپنے رقبے کو دوگنا کرلیا۔ 1949ء میں تقریباً سات لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنا وطن چھوڑ کر قرب وجوار کے عرب ملکوں میں مہاجرین کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 1950ء میں اُردن نے فلسطین کے دریائے اُردن کے مغربی علاقے پر اپنا قبضہ جمالیا، لیکن 1967ء کی جنگ میں دریائے اُردن کے مغربی علاقے ”صحرائے سینا“ اور سیریا کے جولان کے پہاڑی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ جمالیا۔ 1973ء میں اسرائیل کی عربوں سے پھر جنگ ہوئی جس میں صحرائے سینا کا علاقہ تو مصر نے پھر سے حاصل کر لیا مگر فلسطین کے بہت سے علاقے اسرائیل کا حصہ بن گئے۔
 
اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں کی زمین ہتھیانے کا منحوس سلسلہ چلتا رہا۔ 1987ء میں مجاہدین نے یہودیوں کے خلاف سخت جدوجہد کا اعلان کردیا اور پھر فلسطینی مجاہدین صہیونیوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ اسرائیل کی پشت پر چونکہ امریکا، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتیں تھیں، لہٰذا وہ بڑی دلیری سے فلسطینی مسلمانوں کو مارتا رہا۔ 157 کے قریب فلسطین کی مختلف جہادی تحریکوں کے سربراہوں اور اہم ترین کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے بے دردی سے شہید کیا جس پر انسانی حقوق کی بعض غیر جانبدار تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تو امریکا مجبور ہوگیا۔ 2002ء میں امریکی صدر بش نے 2005ء تک مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک روڈ میپ کا اعلان کیا۔ بعدازاں اسی سال یورپی یونین اقوام متحدہ نے بھی اپنے بیانات میں اسی روڈ میپ کی توثیق کی۔ امن کے اس روڈ میپ پر تین مراحل میں عمل کیا جانا تھا۔ امن روڈ میپ کے مطابق اسرائیل کو فلسطین کے مقبوضے علاقے خالی کرنے کا پابند بھی بنایا گیا تھا لیکن اسرائیل نے مزید یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کردیں۔ اس دن سے آج تک یہاں مشرقی یورپ اور روس سے یہودیوں کی لگاتار آمد جاری ہے جس کی وجہ سے نئے یہودی محلے اور آبادیاں قائم ہورہی ہیں۔ القدس کو کشادہ کرنے کے بہانے عربوں کے محلے، اسلامی آثار اور مقامات مسمار کیے جارہے ہیں۔

قارئین! مسجد اقصیٰ کو جلیل القدر انبیا اور اولیا کی جبین نیاز کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔ یہیں سے آخری نبی کو معراج پر لے جایا گیا۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور یہاں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے۔ افسوس! اس دور کے مسلمان اس کی زیارت تک سے محروم ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے اب صہیونیوں نے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں تیز تر کردی ہیں۔ ”مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر“ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں 54 مرتبہ صہیونیوں نے اسرائیلی حکومت کی براہِ راست نگرانی میں مسجدِ اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں کیں۔ اسرائیلی مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر چاہتے ہیں یا پھر کم ازکم اس کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسرائیل نے ”الخلیل“ میں واقع مسلمانوں کی دو مساجد کو تقسیم کردیا تھا۔ ایک حصے پر یہودیوں کا حق قرار دیا اور دوسرا مسلمانوں کے پاس رہنے دیا۔ اس کے بعد سے مسجدِ اقصیٰ کے خلاف بھی وہی کارروائی جاری ہے۔

چند دن قبل مسجد اقصیٰ کے خطیب ”الشیخ عکرمہ صبری“ نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ”انتہا پسند یہودی مسجد اقصیٰ کو تقسیم کرنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع استعمال کررہے ہیں۔ وہ مسجد اقصیٰ کو ”مسجد ابراہیمی“ کی طرح تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جس کا ایک حصہ مسلمانوں اور دوسرا یہودیوں کے لیے مخصوص ہے۔“ اس سازش کی تکمیل کے بعد وہ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
 
انہی مذموم عزائم کے خلاف جماعت اسلامی نے جمعہ 19 مارچ کو ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے ہیں لیکن یہ کام تو عالمی سطح پر اُٹھانے کا ہے۔ یہ فریضہ تو مسلم حکمرانوں کا ہے، مگر اسرائیلی عزائم کے معاملے میں عالم اسلام میں لاعلمی اور بے حسی پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو احساس ہی نہیں مسجد اقصیٰ کے بارے میں صہیونیوں کے کیا ارادے ہیں؟ ان کا سدباب پورے عالم اسلام کی ذمہ داری ہے۔
 
انہیں ناکام بنانے کے لیے ایک اجتماعی مشترکہ پالیسی وضع کرنا ناگزیر ہے۔ بہتر ہوگا سعودی عرب عالم اسلام کو اس سلگتے ہوئے مسئلے پر اکٹھا کرکے لائحہ عمل طے کرے اور مسلمان اجتماعی طورپر اسرائیل کو اس کے خوفناک عزائم سے باز رکھیں۔ خطیب مسجد اقصیٰ نے اسی تناظر میں بڑی دل سوزی سے کہا ہے: ”مسلمان حکمرانوں کو چاہیے وہ بیت المقدس اور اسلامی مقدسات کی حفاظت اور بیت المقدس کے شہریوں کی امداد کے لیے بجٹ مقرر کریں۔ وہ ان کے لیے عالمی فورمز پر توانا آواز اُٹھائیں ورنہ مسجد اقصیٰ ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔“

 
بشکریہ روزنامہ جنگ

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از انور غازی