یہ کیسا المناک تضاد ہے کہ ایک شخص جو جسمانی طور پر معذور اور چلنے پھرنے سے قاصر تھا‘ اس کو دنیا کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ناجائز ریاست اسرائیل کے غاصب اور غیر قانونی حکمران دہشت گرد قرار دے رہے تھے- الشیخ احمد یسین کی تنظیم حماس جہاد کی علمبردار تنظیم تھی- اس تنظیم کا ماٹو’’جہاد ہماراراستہ اور شہادت ہماری آرزو ہے-‘‘یہ ماٹو آج عالم اسلام کے ہر شہر ی کے دل کی دھڑکن بن چکاہے- حماس کے رہنما غاصب اسرائیلیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے حق میں نہیں تھے- وہ گھر پر قابض ناجائز دہشت گردوں سے مذاکرات کی بجائے انہیں بزور بازو گھر سے نکالنے کے فلسفہ کے حامی تھے – ان کا نقطہ ء نظر تھاکہ آزادی پاؤں پڑ کر گڑ گڑانے اور منمنانے سے حاصل نہیں ہواکرتی-
آزادی ایک حق ہے اور غاصب قوتیں مظلوم اقوام کو ان کا یہ حق طشتری میں سیب کی کٹی ہوئی قاشوں کی طرح سجا کر پیش نہیں کیا کرتیں بلکہ یہ حق چھیننے کے لئے مظلوم اقوام کو اپنے جملہ وسائل‘ توانائیاں اور قوتیں منظم اور مربوط کرنا ہوں گی- اسرائیل حماس کے رہنمائوں کے جہادی جذبات سے خائف تھا- ان جہادی جذبات کے فروغ ‘ ترویج اور تبلیغ کے باعث حماس فلسطینیوں کی مقبول ترین اور محبوب ترین جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی- اسرائیلی فوج کی کارروائیاں نازی صہیونیت کی دہشت گردی کی ایک ایسی اشتعال انگیز روایت کو فروغ دے رہی ہیں‘جس کے نتائج کسی بھی طور اسرائیلی ریاست اور اس کے صہیونی عوام کے حق میں بہتر نہیں ہوں گے- محسوس ہوتاہے کہ امریکہ و برطانیہ کی کھلی شیرباد کی بدولت اسرائیل نے فلسطینیوں کے قتل عام کا ایک نازی صہیونی منصوبہ وضع کررکھاہے- جس کے تحت وہ ارض فلسطین کے حقیقی مالکوں اور اصلی باشندوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے کے لئے ممنوعہ مہلک تشیں ہتھیاروں کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے-
جب بھی کوئی غاصب ریاست اور اس کی جارح افواج مقبوضہ ریاست کے حقیقی باشندوں کے خلاف اس قسم کی ظالمانہ اور بزدلانہ کارروائیاں کرتی ہے تو اس کا منطقی نتیجہ مقبوضہ بستیوں کے حریت پسند کفن بردوش شہریوں میں بیداری کی نئی لہر کی شکل میں ابھرا کرتاہے- اس قسم کی مذموم کارروائیاں مقبوضہ دھرتیوں کے حریت پسند عوام کو خواب غفلت سے جگانے کا باعث بھی بنا کرتی ہیں- وقتی طور پر یہ تاثر ضرور ابھرتاہے کہ بے دست و پا اور نہتے حریت پسندعوام جدید ترین‘ مہلک ترین اور خوفناک ترین ممنوعہ ہتھیاروں سے مسلح غاصب افواج کی چیرہ دستیوں سے خائف ہو کر شاید آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں-
5ہزار سال معلوم شدہ انسانی تاریخ کی ایک ایک سطر اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ ظالموں اور ناجائز قابضوں کے دہشت گردانہ عزائم وقتی طور پر خوف و ہراس کی ایک فضا تو ضرور تعمیر کرتے ہیں لیکن یہ دیرپااور پائیدار نہیں ہوا کرتی- حریت پسند عوام اور تحریکوں کے قائدین اور کارکنوں کی ہر نئی گرنے والی نعش جارح غاصب دہشت گردوں کی بربادی کی ایک نئی دستاویز اپنی شہ رگ کے خون سے بغاوت کا پیغام تحریر کردیتی ہے- شہیدوں کے خون سے لکھی گئی شعور‘ بیداری اور آزادی کی دستاویزات پر مرتسم مندرجات کو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کا طاقتور ترین ہاتھ بھی محو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا- سرفروش تنظیموں کے پیرو کار آزادی اور حریت کے ایک علمبردار کی نعش کے میدان عمل میں گرنے کے بعد اس کے پرچم کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر نئے جذبوں اور نئے لوگوں کے ساتھ آزادی کی مانگ میں خون کی افشاں چننے کے بعد عہد اور حلف اٹھاتے ہیں- یہ عہد اور حلف فلسطین کے لاکھوں نوجوانوں نے اپنے ضمیر کی عدالت میں اٹھا رکھاہے- آزادی یا موت کا حلف اٹھانے والے بلاشبہ ہتھیاروں سے محروم ہیں لیکن جذبوں سے معری نہیں- ان کے پاس کروز میزائل ‘ ڈیزی کٹر بم‘گن شپ ہیلی کاپٹر اور تباہ کن بحری جنگی بیڑے نہیں لیکن ان کے زندہ وجود مجسم بم بن چکے ہیں- غاصبوں اور ان کے سرپرستوں کے لئے یہ چلتے پھرتے متحرک بم ’’موبز‘ ایٹم ‘ پلوٹونیم اور دیگر مہلک بموں سے بھی زیادہ ہلاکت آفریں ہیں- ان سانس لیتے بموں نے تحریک آزادی کو ایک نیا رنگ ‘ روپ اور ہنگ دیا ہے-
یہ امر انتہائی افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ فکریہ کی بھی حیثیت رکھتاہے کہ الشیخ احمد یسین کی شہادت کے لرزہ خیز واقعہ کی پوری دنیا میں 175سے زائد ممالک نے مذمت کی مگر امریکہ اور برطانیہ سمیت ان کے چند اتحادی ممالک جو بظاہر شہری آزادیوں ‘ امن ‘مساوات ‘ جمہوریت ‘ تہذیب اور بنیادی انسانی حقوق کے نام نہاد’’عظیم ترین علمبردار‘‘ ہونے کا ڈھندورا پیٹتے رہتے ہیں- حالات و حقائق نے ثابت کیا ہے کہ وہ اخلاقی جرات و دیانت سے کلی طور پر محروم ہوچکے ہیں- یہ ناممکن ہے کہ نہتے فلسطینیوں کے قتل کو دہشت گردوں کے انسداد کی پالیسی تسلیم کرلیا جائے- جہاں تک فلسطینی فدائیوں اور خودکش حملوں کے پرچم بردار شہادت کے تمنائیوں کاہے تو انہوں نے آج تک صرف اور صرف اسرائیلی مظالم کے خلاف اپنے جسم و جاں کا نذرانہ پیش کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی ہے- سنگدلی کی انتہا تو یہ ہے کہ عالمی طاقت اور عالمی اداروں کا ضمیر مردہ ہوچکاہے-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حریت پسند قائدین کی شہادت کے بعد قافلہ حریت کے سیلاب کو روکا اور تھاما جاسکتاہے- حماس اسرائیل کی وہ واحد حریت پسند تنظیم ہے جس میں کرسی کی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی- یہی وجہ ہے کہ حماس کے سربراہ پے درپے جام شہادت نوش کرتے رہیں تو بھی حماس کا قافلہ رکے گا نہیں‘ تھمے گا نہیں بلکہ یہ پہلے سے زیادہ جوش و جذبہ اور ولولے کے ساتھ نئے اہداف اور منازل کی جانب بڑھتا رہے گا- حماس کی قیادت عالمی ذرائع ابلاغ اور عالمی برادری کو متعدد بار دوٹوک الفاظ میں اس امر کی ضمانت دے چکی ہے کہ ’’ہم نے جہاد اور مقابلے کا جو پرچم اٹھا رکھاہے وہ ملک و ملت کے لئے ہے ‘ یہ آزادی کا مسئلہ ہے‘ ہماری ذاتوں کے دفاع کا مسئلہ نہیں- ‘‘انہوں نے بار بہا واضح کیا ’’ آپ ہماری تاریخ دیکھ لیں کہ ہم اسرائیلی شہریوں پر بالکل حملہ نہیں کرتے تھے کیونکہ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن جب انہوں نے ہمارے شہریوں کو بے دریغ قتل کرنا شروع کیا تو یہ پھر ہمارا حق تھا کہ ہم بھی دشمن کے ساتھ ایسا کریں ‘‘حماس کے سربراہ الشیخ احمد یسین ہوں یا عبدالعزیز رنتیسی یا آنے والے دنوں میں کوئی اور شخصیت اس عظیم حریت پسند تنظیم کی قیادت سنبھالے ان میں سے ہر ایک یقین راسخ رکھتاہے کہ ’’جب میں نہیں رہوں گا تو میری جماعت کے لوگ نئی قیادت منتخب کرلیں گے‘‘ گویا حماس کا ہر قائد اس عزم کا اعلان کرتاہے :
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور بھی نکلیں گے عشاق کے قافلے
شہید قائد ایسا چراغ نہیں ہوتا کہ اس کے گل ہو جانے کے بعد تاریکی اور بڑھ جائے بلکہ وہ تو ایک ایسے سورج کی مانند ہوتاہے جس پر لاکھ خاک ڈالی جائے اس کی آب و تاب اور جگمگاہٹ میں کمی واقع نہیں ہوتی- حقیقت اب ایک مسلمہ صداقت بن چکی ہے کہ اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا کردی ہے- فلسطینی ایک طویل مدت تک پر امن انداز میں اپنے حقوق کی بات کرتے رہے- اس دوران ’’فتح‘‘ ‘’’پی ایل او‘‘ اور ’’صاعقہ ‘‘نامی تنظیمیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سرگرم عمل رہیں- لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ کوئی اہم کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں- صبرہ اور شتیلا کے کیمپوں کے خون شام واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیلی غاصب حکام انسانوں کے روپ میں خونخوار درندے ہیں- یہ ایک حقیقت ہے کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد یہ تاثر ہویدا ہوا تھاکہ اب مشرق وسطی میں امن روڈ میپ پر محفوظ اور اور مربوط سفر کاآغاز ہوجائے گا-
معاہدے پر دستخط کے باوجود ایک فریق کی حیثیت سے اسرائیل نے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھی- مشرق وسطی اور عالم اسلام کے شہریوں میں یہ احساس قوی تر ہوتا جا رہاہے کہ جب تک دنیا کی سب سے بڑی اور منظم ترین دہشت گرد اسرائیلی ریاست کو امریکی اور برطانوی حکام ہمہ جہتی‘ سرپرستی اور امداد فراہم کرتے رہیں گے‘ مشرق وسطی میں قیام امن کی منزل تک رسائی کی کوششیں مجذوب کی بڑ اور دیوانے کے خواب کی طرح بے وقعت رہیں گی- کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہو‘ شرم الشیخ کا معاہدہ ہویا اوسلو معاہدہ‘ یہ تمام معاہدے حقائق سے آگاہ دنیا بھر کے ذی شعور شہریوں کے نزدیک ردی کاغذ کے بوسیدہ ٹکڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے-
ان تمام معاہدوں کا بین السطور مقصد صہیونی ریاست کے بال و پر پھیلانے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور حریت پسندوں کے پر کترنا ہے- اس ایجنڈے کے تحت صہیونی اسرائیلی تل ابیب سے خیبر تک گریٹر اسرائیل کے قیام کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہنانا چاہتاہے – حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں اس لئے جارحانہ ہیں کہ حماس کے رہنماؤں اور کارکنوں پر حقائق شکار ہیں- وقت نے ثابت کیا ہے کہ کیمپ ڈیوڈ ‘ شرم الشیخ اور اوسلو معاہدے محض زبانی جمع خرچ اور کاغذ بازی سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں- دنیا بھر کے آزاد اور باشعور شہریوں کو فلسطینی قیادت اور شہریوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کے لئے اپنا احتجاج ریکارڈ پر لانے کے لئے ہمہ جہتی مساعی بروئے کار لانا چاہیں-