بعض چور عالمی شہرت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ عام طور پر چور وہ کہلاتا ہے جو پکڑا جائے مگر خاص قسم کے چور کبھی پکڑے نہیں جاتے کیونکہ وہ چور کرنے سے پہلے اپنے بچ نکلنے کا انتظام کرلیتے ہیں اور معاشرے میں ان کی اتنی زیادہ عزت ہوتی ہے کہ کوئی ان پر چوری کا شبہ نہیں کرسکتا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دولت کمانے والے سب لوگ چور ہوتے ہیں مگر ایک انگریزی محاورہ دنیا کی زبان میں موجود ہے کہ ہر”فار چون“ کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ضرور ہوتا ہے۔
فارچون کے پیچھے جو بھی جرم ہوتا ہے وہ جرم نہیں خوش نصیبی کہلاتا ہے یا کچھ عرصے کے بعد جرم نہیں رہتا جیسے عہد حاضر میں رشوت، رشوت نہیں رہی”ارجنٹ فیس“ بن گئی ہے۔ ویسے ہی چوریاں کاروبار بن گئی ہیں اور جسم فروشی بعض معاشروں میں بنیادی انسانی حقوق کا حصہ بن چکی ہے جبکہ صہیونیت(انتہا پسند یہودیوں کے مسلک) میں جسم فروشی ملک اور قوم کی خدمت سب سے کارآمد حربے کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جب اسرائیل کو وجود میں لانے کا فیصلہ کیا گیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں پہنچنے کا حکم دیا گیا توعرب ملکوں نے اپنی سرزمین پر یہودیوں کے اترنے پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں چنانچہ یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے تیراکی کے لباس میں سونا چھپا کر عرب ملکوں کے ساحلوں کو تیر کر عبور کریں گے ۔ اس فیصلے کے تحت بہت سارے یہودی عرب سرزمین تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں کے بھوکے اور غریب عربوں سے پراپرٹی خریدنے لگے۔ ان کی بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں نے عرب ریگزاروں کے ہوسناک مردوں کی توجہ حاصل کی اور موشے دیان کی بیٹی کی یادوں کی کتاب کے مطابق اسرائیل کو وجود میں لانے کے لئے مرکزی کردار ادا کیا اور ڈیوڈ بن گوریاں کے بیان کردہ طریقہ سے اقوام عالم میں عزت و احترام کا مقام حاصل کیا۔ یہ اسرائیل کے اپنے چوروں کی کارگزاری ہے کہ وہ فلسطین کے نوے فیصد سے زیادہ علاقے پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور امریکی زیر اثر ادارہ اقوام متحدہ اس قبضے کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا کوئی قرارداد منظور نہیں کرسکتا ہے اور اگر منظور کربھی لے تو اس پر عملدرآمد نہیں کروا سکتا عملدرآمد سے انکار کرنے والوں کو توہین عدالت کا نوٹس بھی نہیں دے سکتا چنانچہ ڈیوڈ بن گوریاں کے اس بیان پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ”اسرائیل اگر عالمی برادری میں عزت و احترام کا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی طوائفیں اور اپنے چور میدان عمل میں اتارنے ہوں گے“۔